اندیشے ۔۔۔۔۔ کیفی اعظمی

اندیشے
۔۔۔۔۔۔

روح بے چین ہے اِک دل کی اذیّت کیا ہے
دل ہی شعلہ ہے تو یہ سوزِ محبّت کیا ہے
وہ مجھے بھول گئی اس کی شکایت کیا ہے
رنج تو یہ ہے کہ رو رو کے بُھلایا ہو گا
۔۔۔۔
وہ کہاں اور کہاں کاہشِ غم، سوزشِ جاں
اُس کی رنگین نظر اور نقوشِ حرماں
اُس کا احساسِ لطیف اور شکستِ ارماں
طعنہ زن ایک زمانہ نظر آیا ہو گا
۔۔۔۔
جھک گئی ہو گی جواں سال اُمنگوں کی جبیں
مٹ گئی ہو گی للک، ڈوب گیا ہو گا یقیں
چھا گیا ہو گا دُھواں، گھوم گئی ہو گی زمیں
اپنے پہلے ہی گھروندے کو جو ڈھایا ہو گا
۔۔۔۔
دل نے ایسے بھی کچھ افسانے سنائے ہوں گے
اشک آنکھوں نے پیے اور نہ بہائے ہوں گے
بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے
ایک اک حرف جبیں پر اُبھر آیا ہو گا
۔۔۔۔
اُس نے گھبرا کے نظر لاکھ بچائی ہو گی
مٹ کے اک نقش نے سو شکل دکھائی ہو گی
میز سے جب مری تصویر ہٹائی ہو گی
ہر طرف مجھ کو تڑپتا ہوا پایا ہو گا
۔۔۔۔
بے محل چھیڑ پہ جذبات اُبل آئے ہوں گے
غم پشیمان تبسّم میں ڈھل آئے ہوں گے
نام پر میرے جب آنسو نکل آئے ہوں گے
سر نہ کاندھے سے سہیلی کے اُٹھایا ہو گا
۔۔۔۔
زلف ضد کر کے کسی نے جو بنائی ہو گی
روٹھے جلوؤں پہ خزاں اور بھی چھائی ہو گی
برق عشووں نے کئی دن نہ گرائی ہو گی
رنگ چہرے پہ کئی روز نہ آیا ہو گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجموعہ کلام: آخرِ شب
مطبوعہ: مئی ۱۹۴۷ء

کتب پبلشرز لمیٹڈ، بمبئی

Related posts

Leave a Comment