بصیرت (مرثیہ) ….. خالد علیم

ہرگز نہیں گلشنِ صبا میرے لیے
چلتی ہے سموم کی ہوا میرے لیے
میں ایک مسلماں ہوں تو ہوگی تیّار
ہر دور میں ایک کربلا میرے لیے

۔۔۔۔۔۔۔

اے میرے جاں فگار دل! اے بے قرار دِل!
ہر لحظہ خود نمائی ٔدُنیا سے منفعِل
تجھ سے تو خوش نصیب ہے پتھر کی ایک سِل
اُٹھی ہے کس خمیرسے تیری یہ آب و گِل

دھڑکن ترے وجود کی دم ساز ہے تجھے
ماتم لہو کا حلقۂ آواز ہے تجھے

جب جانتا ہے عالمِ ہستی کو تو سراب
یوںہی نہیں ہے یہ ترے پہلو میں اضطراب
شاید تو دیکھتا ہے جہاں کو بہ چشمِ خواب
حسّاس دل کے واسطے دُنیا ہوئی عذاب

تاروں کی لَو ہے اس کے لیے نار کی طرح
 کانٹے کی نوک ہے اِسے تلوار کی طرح
 
آساں نہیں ہے عقدۂ دشوار کھولنا
چنگاریاں ہوں راکھ سے جیسے ٹٹولنا
شہرِ ہوس میں بول محبت کا بولنا
گویا کلاہِ سَر کو ہے مٹی میں رولنا

مٹی بھی وہ کہ بنتی ہے جو دُھول پائوں کی
اِس سے کہیں ہے شان زیادہ کھڑائوں کی

تو ہے اسیرِ حلقۂ زنجیرِ حرص و آز
بے نغمۂ نشاط ہے تیری صداے ساز
بے رنگِ پیرہن ہے ترا جامۂ نیاز
یوں ہونا چاہتا ہے تو پستی میں سرفراز

 آواز جیسے گنبدِ بے دَر میں قید ہو
یا شوخیِ نظر کسی منظر میں قید ہو

ہر چند زندگی کی، محبت سبیل ہے
یہ راہ پُرخطر ہے، نہایت طویل ہے
ایک ایک نقش جس کا وفا کی دلیل ہے
تجھ میں کہاں وہ ولولۂ موجِ نیل ہے

فرعونِ وقت کی جو رعونت کو توڑ دے
جو جبرِ زندگی کی کلائی مروڑ دے

رنگِ پریدہ تیرے رُخِ لالہ گوں میں ہے
دن بھی ترا سیاہیِ شب کے فسوں میں ہے
شام و سحر تو ایک حصارِ جنوں میں ہے
کیسا جمود یہ ترے سیاّل خوں میں ہے

 جو تجھ پہ حُسنِ خواب کے دَر کھولتا نہیں
 تو بول کر بھی پوری طرح بولتا نہیں

یوں ہو رہا ہے تیری تمنائوں کا لہو
بے راہِ راست، جس طرح منزل کی جستجو
سیمابِ مضطرب ہے کفِ آرزو پہ تُو
بے عکسِ آئنہ ہے ترا جوہرِ نمو

خوں بن کے یوں ٹپکتا ہے دامانِ دیدہ سے
برگِ شکستہ جس طرح شاخِ بریدہ سے

اک بار اپنے سینۂ صد چاک سے نکل
پرواز ہے تو پیرہنِ خاک سے نکل
کچھ ناز ہے تو حلقۂ خاشاک سے نکل
دو چار ہاتھ وسعتِ افلاک سے نکل

ہو تر زبان موجِ مئے سلسبیل سے
پھر دیکھ عرشِ نور کی فکر ِ جمیل سے

ہر صبح کے نواح سے کیوں پھوٹتی ہے رات
ہر رات کے جلو میں ہے کیوں صبح کی حیات
زندہ ہے کیوں فنا کے بدن سے ضمیر ذات
پھر دیکھ کیا ہے مقصدِ تخلیقِ کائنات

پندار ہے زمیں کے مکینوں میں کس لیے
زورِ فلک ہے خاک نشینوں میں کس لیے

کس کے لیے یہ نغمگیِ ہست و بود ہے
دشتِ جہاں میں کس کا جمالِ وجود ہے
کس جنبشِ نظر سے شکستِ جمود ہے
کس لطفِ چشمِ خیر کی ہر سُو نمود ہے

کیوںزندگی وہ حُسنِ نظر دیکھتی نہیں
جس سمت دیکھنا تھا، اُدھر دیکھتی نہیں

جسؐ کے قدم کی خاک ابد تک ہے راہبر
جسؐ کی نظر کا حُسن ہے سرمایۂ نظر
جسؐ کے سخن کا رنگ ہے رنگوں میں معتبر
جسؐ کا کلام سارے کلاموں میں پُراثر

محروم اُس کلام سے کیوں ہے یہ زندگی
اپنے جنوں میں خوار و زبوں ہے یہ زندگی

جب سے تلاشِ حق سے گریزاں ہے زندگی
پوشاکِ آگہی میں بھی عریاں ہے زندگی
ظلماتِ جاں میں سر بہ گریباں ہے زندگی
خود اپنے آپ سے بھی پریشاں ہے زندگی

ہوتی ہیں انقلاب کی باتیں، نہیں نہیں
اس زندگی کے تن پہ لباسِ یقیں نہیں

یہ زندگی نہ ہو سکی ایماں سے مستنیر
آنکھیں کھلی ہیں اور ہے خوابیدۂ ضمیر
آوازۂ بلند ہے لیکن جہانِ پیر
ناآگہی کے سر پہ برستا ہے زمہریر

جو بے یقیں ہے، اُس کو فنا تازیانہ ہے
بے رُوح دل کو مرگِ بدن اک بہانہ ہے

یہ زندگی ہے دربدری کے عذاب میں
خیرہ ہے اِس کی آنکھ جہانِ سراب میں
روشن خیالیوں کی نئی آب و تاب میں
’’نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں‘‘

جو راہ تھی یقیں کی، گماں ہو گئی اِسے
سورج کی روشنی بھی دُھوأں ہو گئی اِسے

دل سے کھرچ کے حرف، خدا کی کتاب کے
آنکھیں ہیں اس کی بند، سخن آفتاب کے
دوچار اس کے پاس ہیں مضموں نصاب کے
باتیں ہیں انقلاب کی، نعرے شباب کے

کیا شے ہے انقلاب، اِسے کب تمیز ہے
تہذیبِ بے خدا کی پرستش عزیز ہے

بھٹکی ہوئی ہے جب سے رہِ مستقیم سے
نکلی ہے جب سے درسِ الف لام میم سے
جب سے کٹی ہوئی ہے کلام و کلیم سے
ٹھنڈک دلوں کی مانگ رہی ہے جحیم سے

بے راہ منزلوں کی ہے رہوار زندگی
اپنی ہی جان کا ہے خود آزار زندگی

یہ روحِ انقلاب سے ہے بے خبر ابھی
سمجھی نہیں حسینؓ کافکر و نظر ابھی
دُزدیدۂ فریب ہے اِس کا سفر ابھی
تاریک شب کی زد میں ہے اِس کی سحر ابھی

بنیاد جس سے ہے ابدی انقلاب کی
بھولی اُسے تو اپنی ہی مٹی خراب کی

اے اہلِ فکر، اہلِ نظر! کیا نظارہ ہے
دامن ہے چاک چاک تو دل پارہ پارہ ہے
ہر چند برجِ اوج میں اپنا ستارہ ہے
سدِّ نگاہ بحر کا پہلا کنارہ ہے

رعشہ سا ہے بدن پہ سمندر کے شور سے
بہنے لگا ہے دل کا لہو پور پور سے

بے مایہ ہے ثبات سے سیّارِ عنکبوت
کم تر غبار سے بھی ہے دیوارِ عنکبوت
گرتا ہے ضربِ کاہ سے رہوارِ عنکبوت
یہ سانس ہے کہ ٹوٹ گیا تارِ عنکبوت

ہونے کو زندگی تھی قدم زن دوام پر
لیکن پلٹ گئی ہے فنا کے مقام پر

ملت پہ سایہ سایہ سراسیمگی کا رنگ
سینوں کے پیچ و تاب میں دم توڑتی اُمنگ
بے مایگی کی تان ہے اِس کی نواے چنگ
بے چارگی کا سُر ہے خیالوں کی جلترنگ

یہ بندگی کے ڈھنگ، غلامی کے طور ہیں
دُنیا میں سربلندی کے انداز اَور ہیں

ہر چند زندگی ہے دلِ آدمی کا حُسن
ہے زندگی اِسی سے، یہی زندگی کا حُسن
یہ عرش و فرش و ارض و فلک ہے اِسی کا حُسن
لیکن لٹا چکی ہے یہ خود آگہی کا حُسن

اس کو خود اپنی ذات کا ادراک ہی نہیں
انساں ہے کائنات، کفِ خاک ہی نہیں

گو معتبر خود اپنی نظر میں ہے زندگی
امکانِ بے جہت کے اثر میں ہے زندگی
صدیوں سے ابتداے سفر میں ہے زندگی
بے علم ہے، جہانِ خبر میں ہے زندگی

اُٹھی ہے جب سے علم کی روشن بساط سے
محروم ہو چکی ہے یہ رنگِ نشاط سے

علم ایک اور چیز، خبر اور چیز ہے
اصلِ ہنر کچھ اور، ہنر اور چیز ہے
عزت کچھ اور چیز ہے، سَر اور چیز ہے
اہلِ نظر کو حُسنِ نظر اور چیز ہے

جو اصل تھا، وہ صرفِ نظر ہو کے رہ گیا
اب علم صرف ایک خبر ہو کے رہ گیا

جس سے دلوں میں اور نگاہوں میں نور ہے
دشتِ توہمات پہ جو برقِ طور ہے
وہ علم جس سے قلب و نظر کا حضور ہے
وہ اصلِ علم اِس کے تصور سے دُور ہے

اس کی سب اصل کا نہ کہیں بھید کھول دے
ڈرتی ہے آئنے سے کہ سچ ہی نہ بول دے

بے چہرگی پہ آئینۂ انبساط ہے
بے رہروی کے دَف پہ سرودِ نشاط ہے
جاں، درمیانِ مرحلۂ انحطاط ہے
ہر سلسلہ خیال کا بے ارتباط ہے

بے بال و پر اُڑان کی زد میں ہے زندگی
اب تک کسی گمان کی زد میں ہے زندگی

دانش وَری ہے اِس کی، دماغوں کے گھائو پر
دُکّانِ زَر ملی نہ کفِ خس کے بھائو پر
عقلِ بشر تمام ہے کاغذ کی نائو پر
کاغذ کی نائو آ نہیں سکتی بہائو پر

خشکی کا بیج بو کے سمندر نہیں مِلے
بے نم زمین سے چمنستاں نہیں کِھلے

منطق تمام علم ہے خاشاک و کاہ کا
ہر فلسفہ، سراب ہے حدِّ نگاہ کا
سامان ہے دماغ کے خار و گیاہ کا
فہم، آدمی کا آئنہ ہے اشتباہ کا

لب خشک فلسفے کے حجابوں کو دیکھ کر
بڑھتی ہے اور پیاس سرابوں کو دیکھ کر

جب سے شعور و فکر ہوئے مبتلاے زَر
ذہنوں کے دشت زار میں ہے عقل منتشر
دل سے گیا یقین، گری ہاتھ سے سِپر
سودا گیا تو رہ گئے شانوں پہ صرف سَر

سوداے سَر نہیں ہے تو کیا سَرفرازیاں
حرص و ہوس کی ہیں سبھی جلوہ طرازیاں

آنکھوں کو خیرہ کر گئی موجِ تعیشات
سینوں میں سرد ہو گئی جذبوں کی کائنات
احساس کو نگل گئی بے مہریِ حیات
فکر ِ معاش چاٹ گئی دل کی واردات

تاثیر کیا ذرا سی گئی برگ و بار کی
عفریتِ حرص کھا گیا کھیتی بہار کی

صدق ایک واہمہ ہے، حقیقت ہے ایک خواب
اِخلاص کے بدن پہ ہے شبہات کا عتاب
اے وائے بارگاہِ امیرانِ انقلاب
سچائی دربدر ہے تو ہے جھوٹ باریاب

ایمان، دشتِ کفر کا اُڑتا غبار ہے
صدیوں سے یہ لباسِ بشر تار تار ہے

جذبے اسیر ہیں قفسِ اِشتباہ میں
اُلجھی ہے آنکھ جلوہ گہِ مہر و ماہ میں
گم کائناتِ ذہن ہے سیلِ نگاہ میں
ساحل نظر سے دُور، سفینہ ہے راہ میں

بے چارگی کی لہر میں ہر چارہ گر ہے گم
آوارگی کے بحر میں عزمِ سفر ہے گم

وہ آدمی جو چیر گیا سینۂ جہات
پھیلا تھا جس کے واسطے دامانِ کائنات
کعبے کو جس نے موڑ دی تقدیرِ سومنات
سیّار تھا وہ آدمی، یہ آدمی ثبات

طوفانِ ابر و باد سے یکسر ڈرا ہوا
یہ آدمی ہے یا ہے غبارہ بھرا ہوا

اب آدمی صداے سخن ہاے چند ہے
سوز و گدازِ دل سے کہاں بہرہ مند ہے
بس نام وَر ہے، نام کا یہ سربلند ہے
باہر سے لب کشا ہے تو اندر سے بند ہے

مدت سے عظمت ِ بشریت گمان ہے
انسان کا بدن ہے کہ خالی مکان ہے

مٹی ہے آسمان کی پہنائیوں میں گم
طفلِ زمیں ہے چاند کی بینائیوں میں گم
پستی فلک کی انجمن آرائیوں میں گم
اک انجمن ہے اور ہے تنہائیوں میں گم

ہر چند لوٹ آیا ہے مریخ و ماہ سے
اوجھل ہیں زندگی کے ستارے نگاہ سے

لیتا ہے جب بھی کام کسی قیل و قال سے
ہنگامہ گرم کرتا ہے جنگ و جدال سے
اس کی سرشت سے ہیں ستارے نڈھال سے
روحِ فلک لرزتی ہے اس کے کمال سے

اس کے ستم سے بند ہے دل ماء و طِین کا
اس کے قدم سے سُرخ ہے سینہ زمین کا

اس پر ستم کہ چڑھ کے شقاوت کی سان پر
اب تھوکنے لگا ہے صداقت کی آن پر
اس کو خبر نہیں کہ اَنا کے گمان پر
جب قہقہہ لگائے زمیں، آسمان پر

اندر سے ہلنے لگتی ہیں چُولیں زمین کی
آیات ہیں گواہ، کتابِ مبین کی

جارُوب کش غبارِ رِیا ہے ضمیر پر
گردِ نفاق و کفر ہے خیرِ کثیر پر
قبضہ غلاظتوں نے کیا جُوے شیر پر
ظلمت کا داغ ہے سحرِ مستنیر پر

زورِ ستم حریمِ تجلی پہ چل گیا
کشتِ صفا کو سیلِ خصومت نگل گیا

زہراب کا فتور اُٹھا آبِ زلال پر
انگلی سیاہیوں نے اُٹھا دی جمال پر
ذرّات ہنس رہے تھے ستاروں کی چال پر
پہرے بٹھا دیے گئے خواب و خیال پر

تعبیر کا سراغ لگانے کی دیر تھی
ایمان کا چراغ جلانے کی دیر تھی

روشن ہوئی جو خاک سے آفاق کی جبیں
دشتِ تپاں سے جاگ اُٹھی جوے انگبیں
گنگ آئنوں کے لب پہ تھی گفتارِ دل نشیں
سنگِ گماں کو توڑ گیا گوہر یقیں

عین اُس گھڑی کہ رحمتِ حق بے کنار تھی
ظلمات کی سپاہ بھی سرگرمِ کار تھی

لب پر تھے تذکرے ابھی دینِ رسول ؐ کے
جھکڑ چمن تک آ گئے صحرا کی دُھول کے
کانٹے حریف بن گئے زہراؓ کے پھول کے
لشکر اُتر پڑے رگِ گل پر ببول کے

ماتم ہُوا چمن میں ، نہ کوئی قلق ہُوا
ضربِ سموم سے بدنِ غنچہ شق ہُوا

سرکردہ اہلِ شہر کہ اپنی ہوا میں تھے
دل اُن کے دشمنوں کی گرفتِ اَنا میں تھے
خوش بخت تھے جو دینِ خدا کی رضا میں تھے
کتنے تھے جو کہ لشکریانِ صفا میں تھے

یہ کیا مخاصمت تھی، یہ کیا بغض و کینہ تھا
خیرہ سروں کی زد میں جنودِ مدینہ تھا

آنکھوں میں بے حسی تھی، زبانیں تھیں شعلہ بار
دامن ہزار تھے درِ شاہی سے داغ دار
بھٹکے ہوئے جنودِ حرم کے وہ راہوار
بے رہ روی کی رہ میں اُڑانے لگے غبار

ہر اعجمی کے ہاتھ میں ناقہ، عرب کا تھا
دعویٰ تھا دیں کا، رنگِ سخن بولہب کا تھا

فطرت میں ٹیڑھ تھی کہ کجی تھی نگاہ کی
کی اختیار ڈھونڈ کے پستی گناہ کی
لذت بڑھی جو آنکھ میں سامانِ جاہ کی
ظلمت نے بڑھ کے سینۂ ظلمت میں راہ کی

کوئی خوشی سے، کوئی بہ اکراہ بن گیا
تاریک باطنوں کا ہوا خواہ بن گیا

اہلِ کمال چپ تھے ، زمانہ خموش تھا
ظاہر میں کوئی رنگ نہ سینوں میں جوش تھا
ہنگامِ بے حسی میں کسے اپنا ہوش تھا
سیمابِ مضطرب بھی دلِ بے خروش تھا

جسموں میں جاں نہیں تھی، دم آواز میں نہ تھا
جذبوں کا التہاب کسی ساز میں نہ تھا

تھی خود سری کی آگ دلِ کج کلاہ میں
بے رہ روی کا رنگ تھا اُس کی نگاہ میں
رہتا نفوسِ قدس کی اُس جلوہ گاہ میں
ایماں کی روشنی تھی کہاں رُوسیاہ میں

بس شمر اور یزید میں اتنا ہی فرق تھا
وہ قہر تھا، یہ بغض و عداوت میں غرق تھا

دینِ ہُدیٰ کے مقصدِ اعلیٰ سے دور تھا
اُس کا سِنِ شعور بھی کیا بے شعور تھا
ناواقفِ مقامِ صبور و شکور تھا
سب کچھ یہی سہی مگر اتنا ضرور تھا

ابنِ معاویہ تھا، اُمیّہ کی آل تھا
سچائی کیا ہے، اُس کا سمجھنا محال تھا

اس کا ہر ایک طرزِ عمل جارحانہ تھا
حکم اُس کا زندگی کو فنا کا بہانہ تھا
کیسے جنوں کا عہد تھا، کیسا زمانہ تھا
سچائی داستان، حقیقت فسانہ تھا

ہر دشمنِ شریرمیں بجلی تھی قہر کی
اُتری تھی ہر زبان میں تاثیر زہر کی

کوفہ کے بام و دَر پہ تھا سایہ ہراس کا
اوڑھا لبادہ، خوف نے وہم و قیاس کا
حشر اس طرح کیا گیا پھولوں کی باس کا
دامن کشادہ ہونے لگا بیم و یاس کا

نم دیدہ ہر کلی تھی، پریشاں تھا رخت ِ گل
ٹکڑے ہُوا تھا خارِ مغیلاں سے لخت ِ گل

سہمی ہوئی فضا تھی، اڑانوں میں خوف تھا
پتھر دلوں کا، آئنہ خانوں میں خوف تھا
گلیوں میں شور و شر تھا ، مکانوں میں خوف تھا
سچ کون بولتا کہ زبانوں میں خوف تھا

حکم، اہلِ اقتدار کا جاری تھا ہر طرف
لرزہ ہر اک وجود پہ طاری تھا ہر طرف

حرص و ہَوا کے زاغ، سرِ برگ و بار تھے
ہر ناتوانِ شہر کو صدمے ہزار تھے
وہ لوگ جو ازل کے صداقت شِعار تھے
اپنے دیار میں بھی غریب الدیار تھے

بے جان جسم تھے کہ بلکتی تھی زندگی
ہر آدمی کے تن میں سسکتی تھی زندگی

جلوہ گہِ خموش تھا گو آسمانِ وقت
مٹنے کو دہر سے تھے عزیمت نشانِ وقت
شاید ابھی ٹھہرنے کو تھا کاروانِ وقت
خود آگہی کے نور نے کھولی زبانِ وقت

ظلمت کے تن پہ جس کی صدا تازیانہ تھی
ہاں یہ صدا، صداے امامِ زمانہ تھی

حق کی یہی صدا تھی کہ جس پر وہ سب شریر
لائے قضا کی دھار پہ پیغامِ دار و گیر
غارت پسند امارتِ شاہی کے وہ مشیر
کچھ جانتے نہیں تھے سواے زبانِ تیر

کارِ یزیدیت کو بچانے نکل پڑے
سچائی کی صدا کو دبانے نکل پڑے

بے رحم، سنگ دل، ستم ایجاد، کینہ وَر
کج فکر ، کج نہاد ، بد آموز ، بدگہر
ایمان کے حریف ، ہوس کار ، خیرہ سر
عقبیٰ کا خوف تھا، نہ انھیں تھا خدا کا ڈر

اللہ کا ، نبی ؐ کا کہا مانتے نہ تھے
کیا حکمت ِ رسول ؐ ہے، پہچانتے تھے

شبخون، انتظامِ خلافت پہ مار کر
آ پہنچے کربلا میں وہ زورآورانِ شر
خونِ رگِ حسینؓ سے دامن کو کرکے تر
پہنچے درِ یزید پہ بہرِ حصولِ زر

سرشار تھے کہ خانۂ انوار لُٹ گیا
اُن کے سبب رسول ؐ کا گھر بار لُٹ گیا

خیمہ گہوں کو آگ لگا کر وہ آئے تھے
جلتے ہوئے چراغ بجھا کر وہ آئے تھے
آلِ نبی ؐ کا خون بہا کر وہ آئے تھے
فرعونیت کا رنگ دکھا کر وہ آئے تھے

بوجہل کا دماغ سَروں میں لیے ہوئے
آئے تھے شیطنت کو پَروں میں لیے ہوئے

ماتم کی یہ گھڑی ہے مگر اے نگارِ دِل!
کچھ تو سنبھل کہ ہو نہ کہیں رُوح مضمحِل
ہر دل کو سینہ سوز ہے یہ دردِمستقِل
دیکھیں جو ایک بار تو آنکھیں ہوں منفعِل

اک بار ہی سہی، یہ نگاہیں اُٹھا کے دیکھ
آزردگانِ شام کے رستے میں جا کے دیکھ

اے دل سنبھل! وہ دیکھ ذرا کاروانِ شام
وہ کارواں، وہ قافلۂ نیم جانِ شام
غربت کے ہم قدم کئی تشنہ دہانِ شام
صدیاں گزر گئی ہیں مگر آسمانِ شام

یوں ہے غمِ حسینؓ سے خوں رنگ آج بھی
زینب پہ جس طرح ہو زمیں تنگ آج بھی

منظر یہ درد کا نہ نگاہِ ہنر سے دیکھ
حالات و واقعات نہ چشمِ خبر سے دیکھ
دل پراُٹھا صعوبتیں، دل کی نظر سے دیکھ
خود ہم سفر ہو اور نگہِ ہم سفر سے دیکھ

ہو لب کشا فریضۂ مَدح و سلام کو
رکھ دل کے آئنے میں مصائب کی شام کو

وہ شام جو کہ آلِ پیمبرؐ کی شام تھی
وہ آل جس سے زینتِ دارالسلام تھی
جس کی سیادت آئنۂ احترام تھی
جو باقیاتِ خانۂ عالی ؐ مقام تھی

بے گھر ہوئی کچھ اس طرح جیسے کہ گھر نہ تھا
تھی یوں سفر میں، دوش پہ رختِ سفر نہ تھا

دل تھے بجھے بجھے تو بدن چُور چُور سے
آنکھیں تھیں سوگوار غموں کے وفور سے
اِس پر بھی دیکھنے میں قریب اور دُور سے
ہر چہرہ زرنگار تھا ایماں کے نور سے

ایماں کہ جس کا حِفظ، تمناے شاہ تھی
گھر سے مسافرانِ الم کی یہ راہ تھی

اس راہ میں ہزار مصائب کے دَر کھلے
صدہا الم بہ سطحِ نگاہ و جگر کھلے
صد عقدہ ہاے غم ز رہِ پیش تر کھلے
تعدادِ بے شمار میں اشکوں کے پر کھلے

آخر عجیب صورتِ حالات ہو گئی
غم کی تھی وہ گھٹا کہ سیہ رات ہو گئی

اے دل سنبھل سنبھل! کہ سنبھلنے کا ہے مقام
ظلمت رسیدہ عہد ہے اور جلوہ گاہِ شام
موضوعِ قلب و فکر ہیں ساداتِ نیک نام
کر اشکِ غم سے صفحۂ مژگاں کا اہتمام

منظر نظر میں رکھ کے گزرگاہِ شام کا
لکھ مرثیہ امامِؓ رفیع المقام کا

عرضِ سخن میں خود کو جگانے کا چارہ کر
وہم و گماں کو چھوڑ، یقیں استعارہ کر
آنکھوں کو گردِ راہ ، جگر پارہ پارہ کر
سینے کو چاک چاک ، قلم کو ستارہ کر

لکھنے کو یوں نہ ڈال سیاہی دوات میں
بھر لے تمام خونِ جگر اپنے ہات میں

اس طرح شانِ آلِ پیمبرؐ بیان ہو
کاغذ پہ نوکِ خامہ، عزیمت نشان ہو
لب خشک ہوں تو پیاس میں کانٹا زبان ہو
آنسو جگر میں تیر، کمر بھی کمان ہو

زخمی تمام جسم ہو تیغوں کی ضرب سے
جاں، آشنا ہو آلِ پیمبرؐ کے کرب سے

گر یہ نہیں تو صوتِ طرح دار کچھ نہیں
نغمہ نہیں تو لفظ کی جھنکار کچھ نہیں
جذبہ نہیں تو قوتِ گفتار کچھ نہیں
سینہ نہیں فگار تو اظہار کچھ نہیں

خالی یہاں بیان کی مستی نہ کام دے
اس مرحلے میں لفظ پرستی نہ کام دے

جاں کو وِلاے سیّدِ سادات چاہیے
دل حُبِّ اہلِ بیت میں دن رات چاہیے
تخصیصِ صدق و کذبِ روایات چاہیے
لازم ہے فرقِ اصل و حکایات چاہیے

جب چشمِ اشک بار سے خامہ وضو کرے
تب حرف، مرثیے کا، قلم سے نمو کرے

جتنا بھی اشک و آہ کا سامان ہو بہم
ممکن نہیں کسی سے بیانِ غم و الم
اب تک سرِ قلم ہے خمیدہ بہ حزن و غم
ہو لوحِ جاں پہ جیسے قلم کا بھی سَر قلم

عباس کے فرات پہ بازو قلم ہوئے
اشکِ قلم سے غم کے نہ دفتر رقم ہوئے

خالد! قلم کو صورتِ تحریر ایک ہے
پیشِ نگاہ، درد کی تصویر ایک ہے
مرقوم ہر ورق پہ جو تفسیر ایک ہے
شبیّر ہی کا نالۂ شب گیر ایک ہے

جس سے ملا وجود دلِ کائنات کو
پیاسا رہا کہ دے گیا پانی فرات کو

اے فکر! یہ بھی دن ہیں ترے انقلاب کے
کہتے ہیں کچھ کہ دشت میں چشمے تھے آب کے
دیکھے ہوں جس نگاہ نے منظر سراب کے
وہ رنگ جانتا ہے خیال اور خواب کے

کچھ تھا اگر تو برِّشِ شمشیر سر پہ تھی
سختی یہ ابتدا سے پیمبرؐ کے گھر پہ تھی

اس اَمر کا خیال بھی سوداے خام تھا
’زمزم کا لُطف وادیِ طَف میں تمام تھا،
چشمہ بھی تھا تو اک ورقِ اختتام تھا
پانی کہاں تھا، منظرِ برقِ حسام تھا

شمشیرِ ظلم سَر پہ بہت آب دار تھی
ہر ایک تن میں صبر کی طاقت ہزار تھی

وہ صبر جس سے تنگ تھا دامانِ ہا و ہُو
تشنہ دہانِ آلِ نبی ؐ تھے کنارِ جُو
شدت تھی دشتِ طف کی پس و پیش، سُو بہ سُو
لُٹ جائے جس کو دیکھ کے دریا کی آب رُو

وہ پیاس تھی کہ پیاس کو غش آ کے رہ گیا
دریا بھی ایک بار تو بل کھا کے رہ گیا

وہ پیاس جس کی کاٹ سمندر کو چیر دے
آنکھوں میں نزد و دُور کے منظر کو چیر دے
پرواز میں دَر آئے تو شہپر کو چیر دے
وہ جس کی نوک، سینۂ محشر کو چیر دے

اُترے زبان میں تو چلی جائے جان میں
چھوڑے نہ کوئی قطرۂ تر آسمان میں

لیکن وہ پیاس آلِ پیمبرؐ کی پیاس تھی
وہ پیاس سبطِ ساقیِؐ کوثر کی پیاس تھی
اصغر کی پیاس تھی، علی اکبر کی پیاس تھی
صحراے کربلا میں بہَتّر کی پیاس تھی

تھی رشکِ صبر وضبط ،کراں تا کراں، وہ پیاس
قربان جس پہ قلزمِ ہفت آسماں، وہ پیاس

خورشید دوپہر کا تھا سَر پر کھڑا ہوا
حدِّ ادب میں سایہ نہ قد سے بڑا ہوا
اک سمت دل پہ کفر کا پتھر پڑا ہوا
مشکیزہ ایک، اَور تھا دریا چڑھا ہوا

دریا کو مُنتہاے روانی نہ مل سکا
ظالم سے ایک گھونٹ بھی پانی نہ مل سکا

یہ اِبتداے ظلم تھی، اِب انتہاے ظلم
میدانِ کارزار میں اُترا خداے ظلم
سرخیلِ جبر و قہر، وہ فرماں رواے ظلم
یعنی وہ شمر، بانی ِ وحشت سراے ظلم

لشکر کے ساتھ جھپٹا وہ پیاسوں پہ اِس طرح
خوں خوار بھیڑیے ہوں نہتوں پہ جس طرح

کھولا حسینؓ  نے علَم آلِ رسول ؐ کا
سینہ دھڑک اُٹھا بدنِ عرض و طول کا
یہ معرکہ تھا دین میں ردّ و قبول کا
تھی مختصر سپاہ تو دامن بتولؓ کا

فوجِ یزید جس پہ کڑکتی ہوئی اُٹھی
ایماں پہ شر کی آگ بھڑکتی ہوئی اُٹھی

اک سمت صف بہ صف تھا جہانِ فریب و شر
اک سمت صرف دینِ پیمبرؐ کی رہ گزر
اک سمت تا بہ حدِّ نظر ظلم سَر بہ سَر
اک سمت دینِ حق کا سپہ دارِ نام وَر

اک پل سرشتِ خیرہ سَراں بھی تڑپ اُٹھی
دیکھا کہ رُوحِ عالمیاں بھی تڑپ اُٹھی

لشکر تھا ایک سر پہ بہ صد غولِ گم رہاں
چند اہلِ حق تھے سبطِ پیمبرؐ کے ہم عناں
مقتل میں آ چکے تھے یہ اُمت کے پاسباں
جھپٹی نفوسِ چند پہ فوجِ ستم گراں

اک جلوہ گاہِ کرب و بلا تھی چہار سُو
یاد آ گئی اُحد کے شہیدوں کی آب رُو

نیزے لیے ہوئے سپہ ِ فتنہ گر اُٹھی
حلقومِ خیر کاٹنے شمشیرِ شر اُٹھی
خیموں پہ جب نگاہ ذرا لمحہ بھر اُٹھی
منظر تھا دردناک ، جدھر بھی نظر اُٹھی

تیروں کی بارش، اور تھی پیاسی سپاہ پر
آلِ نبی ؐ تھی چشمۂ کوثر کی راہ پر

ایک ایک پر، ہجوم تھا صدہا غنیم کا
سایہ تھا اہلِ حق پہ خداے کریم کا
ہر ایک گام زن تھا رہِ مستقیم کا
رستہ لیا ہر ایک نے خلدِ نعیم کا

میدانِ کارزار میں یکتا حسینؓ تھے
سب ہو گئے شہید تو تنہا حسینؓ تھے

ہاں وہ حسینؓ ، عزم کا کہسار، وہ حسینؓ
صاحب نگاہ، صاحبِ کردار، وہ حسینؓ
وہ فاطمہؓ کا لختِ جگر دار، وہ حسینؓ
یعنی وہ سبطِ سیدِّؐ ابرار، وہ حسینؓ

یہ دیکھ کر کہ ظلم ہے اب حد سے مستزاد
نکلا بدن پہ اوڑھ کے پیراہنِ جہاد

میدان میں حسینؓ کہ فردِ فرید تھا
گرمی کا التہاب ، بدن پر شدید تھا
حق آشنا زباں پہ کلامِ مجید تھا
فردوس کا نگاہ میں سامانِ دید تھا

وہ مصطفیٰ ؐ کا شاہ سوارِ علَم وقار
جلوہ فروز تھا سرِ میدانِ کارزار

زخموں کی آب و تاب سے چہرہ تھا مشکبو
چھلنی تھا پورا جسم ، قبا تھی لہو لہو
ذلت تھی اہلِ شر کی تو ایماں تھا سرخ رُو
پوری ہوئی خدا سے شہادت کی آرزو

گو انتہا نہ تھی کوئی صبر و ثبات کی
صد بار آنکھ بھیگ گئی کائنات کی

وہ دین کا امام، وہ اُمت کا راہ بر
وہ حُسنِؐ کائنات کا سرمایۂ نظر
سجدے میں سَر تھا اور دو عالم تھے نوحہ گر
غم کا تھا وہ مقام کہ القصہ مختصر

صدہا قیامتیں تھیں کہ لمحہ جدائی کا
زینب کو تھا یہ آخری دیدار بھائی کا

سبطِؓ نبیؐ کو تھا یہ سعادت کا مرحلہ
اسلام کی عظیم قیادت کا مرحلہ
آلِ محمدی ؐ کی سیادت کا مرحلہ
آخر ہوا تمام ، شہادت کا مرحلہ

لیکن یہ سب پہ ایک حقیقت عیاں ہوئی
تا حشر کربلا کی زمیں ، آسماں ہوئی

یہ معرکہ دلیل ہے یومِ نشور کی
تفہیم ہے یہ حکمتِ ربِّ غفور کی
تعلیم ہے یقین کی، صبر و صبور کی
نزدیک ہو گئی کہ جو منزل تھی دُور کی

تا عرش یہ حقیقت ِ کرب و بلا گئی
کچھ دن کی داستان تھی، صدیوں پہ چھا گئی

اے دل ذرا ٹھہر! یہ ادب کا مقام ہے
یہ دیکھ کیا روایتِ تاریخِ شام ہے
مت اُس سے پوچھ جو کہ ریا کا غلام ہے
پوچھ اُس سے جو سرشت میں کچھ نیک نام ہے

تھوڑا سا بھی دماغ ، ہَوا کا نہیں مجھے
بُغضِ معاویہ سے علاقہ نہیں مجھے

پوچھ اُس سے یہ کہ خُلد کا مقسوم کون ہے
ظالم ہے کس کا نام تو مظلوم کون ہے
حق کی زباں میں صفحۂ مرقوم کون ہے
موجود کون کون ہے، معدوم کون ہے

کبر و اَنا میں، ظلم پرستی میں کون ہے
ہے کون سرفراز تو پستی میں کون ہے

دیکھا ذرا نہ اُس نے کہ یہ کس مقام پر
کس کو کیا شہید سیاست کے نام پر
ظلم اس طرح اُٹھایا سپاہِ امام پر
اب تک لہو جما ہے گزر گاہِ شام پر

دیکھا نہ اُس نے نام و نسب دیکھنے کے بعد
دشمن نے بھی کیا ہے ادب، دیکھنے کے بعد

جس کی تمام دینِ نبی ؐ پر اَساس تھی
تعظیم جس کی بے عدد و بے قیاس تھی
چہرے پہ تھا جلال، زباں میں مٹھاس تھی
دل حق رَسا تھا، آنکھ پیمبرؐ شناس تھی

شب زندگاں میں ایک جو شب زندہ دار تھا
دیکھا نہ یہ کہ شہرِ نبی ؐ کا وقار تھا

ملت کا ایک سیّد و سرور تھا سامنے
دینِ رسول ِؐ پاک کا رہ بر تھا سامنے
عکسِ لواے ساقیِ ؐ کوثر تھا سامنے
دیکھا نہ یہ کہ سبطِ پیمبرؐ تھا سامنے

جو سامنے تھا، کون تھا، فرزند کس کا تھا
دیکھا ذرا نہ یہ کہ جگر بند کس کا تھا

گر اُس کے مرتبے کا نہ اندازہ کر سکو
کس دوش کا سوار تھا اِتنا ہی جان لو
وہ تو سوارِ دوشِ نبی ؐ تھا ستم گرو!
جس پر قدم ہوں اُنؐ کے، وہ خاک آسمان ہو

آتا ہے آفتاب جو اُس دَر کے سامنے
جھکتا ہے با اَدب رُخِ انور کے سامنے

اُس جلوۂ عظیم کا دل بر تھا وہ عظیم
تسکینِ قلب و جانِ پیمبرؐ تھا وہ عظیم
گیسوے مصطفیٰ ؐ سے معطر تھا وہ عظیم
دیکھا نہ تم نے کس کا دلاور تھا وہ عظیم

کس ناز، کس کے پیار سے پالا ہوا تھا وہ
سانچے میں کس جمال کے، ڈھالا ہوا تھا وہ

تلوار اُس کی سمت بڑھائی، ہزار حیف!
یہ خود سَری، یہ گم رہی، یہ اختیار حیف!
ساداتِ قدس پر نشۂ اقتدار حیف!
اس پر بہ زعمِ خویش یہ عز و وقار؟ حیف!

کیا رُوسیاہ تھے کہ سیاہی میں ایک تھے
قاتل کی جی حضوریِ شاہی میں ایک تھے

گویا خیالِ آلِ پیمبرؐ ذرا نہ تھا
اس پر حصولِ طاعت و بیعت، بہانہ تھا
تاہم اگر حسینؓ سے عہدِ وفا نہ تھا
فرمانِ سرورِؐ دو جہاں یاد کیا نہ تھا؟

چاہت ہے جس کے سینے میں ابنِ بتولؓ کی
تعظیم اُس نے کی ہے خدا کے رسول ؐ کی

اوصاف کیا میں ابنِ علیؓ کے بیاں کروں
جوہر کہاں تک اور قلم کے عیاں کروں
سینے کا سوز، آنکھ سے گوہر فشاں کروں
اہلِ دل و نگاہ کو بھی ہم زباں کروں

’’مسلم‘‘ کے رنگ ِ گِریہ گزاری میں دیکھنا
تحریر ہے رواہِ ’’بخاری‘‘ میں، دیکھنا

سرنامۂ جمال ہے سبطِ نبیؐ کی شان
خوش فکر، خوش نگاہ، خوش اطوار، خوش بیان
وہ خوش نوا، وہ آلِ پیمبرؐ کی آن بان
جس کی گواہی آج بھی دیتا ہے آسمان

گیتی کے ہر ورق پہ جو عظمت نشان ہے
کتنی بڑی نبی ؐ کے نواسے کی شان ہے

رکھی خلافِ آلِ پیمبرؐ یہ دُشمنی؟
حق کا دیا پیام تو اس پر یہ دُشمنی؟
باہر زبانِ دوست، تو اندر یہ دُشمنی؟
دُشمن کی خوے بد سے بھی بڑھ کر یہ دُشمنی؟

وہ دُشمنی کہ کینۂ دُشمن کو عار ہو
دُشمن کو بھی نہ ایسے ستم گر سے پیار ہو

سُنتے ہیں ہم سکندر و رُستم کی داستاں
پڑھتے رہے ہزار حکایاتِ خوں چکاں
یونان و مصر و روم و عجم کی کہانیاں
دیکھی بہت سرشت ِ نگاہِ ستم گراں

لیکن وہ ظلمِ آلِ اُمیّہ کہ الحذر!
اس پر یہ دوستی کا رویّہ کہ الحذر!

اُس لشکرِ یزید میں شامل پۓ جدال
کچھ اعجمی تھے اور تھے ناواقفانِ حال
اسلام کا نہ دین کی اَقدار کا خیال
تھے مبتلاے حرصِ زر و مال، بد خصال

ان کی نظر کب اُسوۂ میرِؐ عرب پہ تھی
بنیاد اس قتال کی نام و نسب پہ تھی

سفاکیِ یزید نہیں اس پہ ہی تمام
کرتا ہُوا وہ اہلِ مدینہ کا قتلِ عام
نذرِ اجل کیے کئی اصحابِؓ نیک نام
پامالِ خاک کر دیں زنانِ ذوالاحترام

تاریخ کو وہ واقعہ حرّہ بھی یاد ہے
حیرت نہ کر کہ یہ بھی یزیدی فساد ہے

اے صاحبِ روایت و تاریخ، والقلم!
دل میں ہے میرے عظمتِ اصحابِؓ محترم
لیکن رہے خیال کچھ اِس کا بھی کم سے کم
وہ فاطمہؓ کا لال کہ سب میں تھا ذی حشم

اے رہروِ فساد، دُرست اپنے طور کر
کس کو کیا شہید، ذرا یہ تو غور کر

اُس کو کہ جو منارہ تھا دیں کے اصول کا
اُس کو کہ جو ستارہ تھا چشمِ بتول کا
وہ جو کہ تھا حریف، ظلوم و جہول کا
وہ ابنِ مرتضیٰؓ ، وہ نواسا رسول ؐ کا

صد حیف! ایسے سیّدِ مجلس پہ اُٹھ گیا
کانپا ذرا نہ ہاتھ کہ یہ کس پہ اُٹھ گیا

اُس جیسا کوئی اور اگر تھا تو کون تھا
زینت دہِ جہانِ نظر تھا تو کون تھا
رُوے جمالِ علم و خبر تھا تو کون تھا
اُس سا کوئی متاعِ دِگر تھا تو کون تھا

تم یہ تو جانتے ہو کہ ہرگز نہ تھا کوئی
مسند کا اِہل کون تھا اُس کے سوا کوئی؟

ہے بند آنکھ، آنکھ کو آئینہ خیز کر
کج دار ہے نگاہ تو فکر ِ مَریز کر
تاریخ کے ورق پہ نظر اپنی تیز کر
حق آشنا ہو، خود کو تعصب گریز کر

آ جا نکل کے جھوٹ سے سچائی کی طرف
بس ایک بار دیکھ لے گہرائی کی طرف

یہ دیکھ حق کی آن پہ کس کا لہو گرا
صدبار کٹ کے کون بہ حالِ وضو گرا
کس کا زمین پر بدنِ مشکبو گرا
گردن کٹائی کس نے، بہ صد آب رُو گرا

کٹ کر جو صدقِ ذات کا منظر دکھا گیا
گرتے ہی آسماں کی بلندی پہ چھا گیا

مقصود، حق کے واسطے جاں کا خراج ہے
شاہی کی اہلِ خیر کو کب احتیاج ہے
پیشِ نگاہ جن کے، خلافت کا تاج ہے
میرا سوال اُن سے بہ صد احتجاج ہے

ہر معرکے میں شر کے مقابل ہے خیر کیوں؟
حجاج کے خلاف ہے ابنِ زبیر کیوں؟

کر غور! جب چلا تھا مدینے سے قافلہ
پیشِ نظر امارتِ شاہی نہ تھا صِلہ
گونجی ہر اک مقام سے آوازِ راحلہ
حق کا شریعت ِ نبوی ؐ پر ہو فیصلہ

عقبیٰ رَسا کو حرص، امارت نہ تاج کی
شان اِس سے کچھ جدا ہے پیمبرؐ مزاج کی

درپیش ہر قدم پہ صعوبت تھی راہ کی
رستہ تھا خارزار، جہاں تک نگاہ کی
وہ صبر تھا، کسی نے فغاں کی، نہ آہ کی
ہمت جواں تھی سبطِؓ رسالت پناہؐ کی

ہر روز ایک دوسری منزل نظر میں تھی
منزل بہ منزل آلِ پیمبرؐ سفر میں تھی

ایک اک قدم سراب کا منظر کھنچا ہُوا
سورج کہ تھا سَروں پہ برابر تنا ہُوا
اُٹھا جو پائوں قرصِ زمیں ناپتا ہُوا
ایڑھی سے چل کے جسم تلک آبلہ ہُوا

حدِ نظر تک آئنۂ دشتِ خار تھی
سو مشکلوں پہ راہ، مسافت گزار تھی

بچے بھی تھے، جوان بھی اور محرمات بھی
پردہ نشیں وہ آلِ نبی ؐ کی بنات بھی
تھی ساتھ خواہر ِ حسنِؓ خوش صفات بھی
جان و دلِ حسینؓ ، دلِ کائنات بھی

آئی نہ جو کبھی کسی میلی نگاہ میں
بے پردہ ہو کے رہ گئی دربارِ شاہ میں

وہ شِیر خوار اصغرِ شش ماہ، الاماں!
تشنہ لبی کے دشت میں ننھی سی ایک جاں
پھولوں سی ماں کی گود کہاں، کربلا کہاں
گر، یہ بھی مان لیں کہ تنومند سب جواں

آئے جو کارزار میں حرب آزمائی کو
کیا شیر خوار بھی چلا آیا لڑائی کو؟

وہ جن کی اپنی راے تھی جمہور کے خلاف
اندر سے کھوکھلے تھے کہ چہروں پہ تھے غلاف
یہ امرِ حق ہے اور اِسے کہتا ہوں صاف صاف
اس تلخ گو ئی پر ذرا رکھیے مجھے معاف

ظالم بھی، عظمتوں کے بھی امیدوار، حیف!
اے قاتلانِ آلِ پیمبرؐ، ہزار حیف!

مظلوم بھی، شہید بھی، محصور بھی حسینؓ
جابر کی تیغِ جبر سے مجبور بھی حسینؓ
قاہر کے گرزِ قہر سے مقہور بھی حسینؓ
اور ا مرِ باغیانہ پہ مامور بھی حسینؓ؟

اے اہلِ فکر ، فکر کا یہ کیا تضاد ہے
سمجھے ہو اُس کو حق پہ، جو وجہِ فساد ہے

ابنِ زیاد و شمر کی جانب کرو نظر
وہ بانیانِ ظلم ، خدایانِ شور و شَر
اپنے تمام خام دلائل کے زور پر
ثابت کرو گے کس طرح تم اُن کو راہ بر

کیسے بلند ہوگا اب اِس کذبِ خواب سے
ابنِ معاویہ پسرِ بوترابؓ سے

کیا اور کوئی ہوگا کہ جیسا حسینؓ تھا
ہاں وہ حسینؓ جو کہ شہِ مشرقین تھا
بنتِ رسول ِؐ پاک کا جو نورِ عین تھا
جو سیّدؐ البشر کی نگاہوں کا چین تھا

عالم میں انتخاب تھا، عظمت میں فرد تھا
دانش میں لاجواب تھا، میداں کا مرد تھا

وہ چاہتا خروج تو کیا سدِّ راہ تھا
سب جانتے ہیں، سبطِ رسالت پناہؐ تھا
ملت میں سربلند تھا، اُمت کا شاہ تھا
ایک ایک فردِ شہر کو نورِ نگاہ تھا

سب اُس کا مے کدہ تھا کہ مینا اُسی کا تھا
اُس کے تھے سب کہ شہرِ مدینہ اُسی کا تھا

دل سے مگر عزیز تھی اُمت حسینؓ کو
مقصود تھی نمازِ شہادت حسینؓ کو
ہرگز نہ تھی پسند امارت حسینؓ کو
تطہیرِ جاں تھی دیں کی قیادت حسینؓ کو

رنگِ امارت اور قیادت کچھ اور ہے
اہلِ صفا کی شانِ حکومت کچھ اور ہے

اُن کے ہیں جسم، اِن کا دلوں پر ہے اختیار
وہ اہلِ مُلک و مال، یہ دل کے خزانہ دار
وہ رہروانِ ارض تو یہ آسماں وقار
وہ تاج دار، اِن کی ہیں ٹھوکر میں تاج دار

دل اِن کے، جان اِن کی، نگاہیں اِنھی کی ہیں
سب منزلیں اِنھی کی ہیں، راہیں اِنھی کی ہیں

المختصر! یہ جنگ نہیں تھی، فساد تھا
یہ دَجلِ شمر ، حیلۂ ابنِ زیاد تھا
آلِ نبی ؐ کے نام و نسب سے عناد تھا
سوچیں اگر تو اس سے بھی کچھ مستزاد تھا

چاہا کہ ڈال دیں وہ کمند آفتاب پر
مثلِ حباب ٹوٹ گئے سطحِ آب پر

اے انتہاے فہمِ بشر اِس پہ غور کر
تاریخ ہے گواہ صداقت کی فتح پر
خاکی بھی رہ چکے ہیں فرشتوں کے ہم سفر
کر صاف دل کا آئنہ و شیشۂ نظر

اپنی نظر سے گردِ کدورت ہٹا کے دیکھ
صحرا کی گرم ریت میں جوہر صفا کے دیکھ

اس آئنے کو ایک نظر دیکھ تو سہی
طے ہو چکے ہیں کتنے سفر، دیکھ تو سہی
تجھ پر کھلے جہانِ خبر، دیکھ تو سہی
ایماں کے بیج کا وہ ثمر دیکھ تو سہی

یہ دیکھ فتح مند ہوا خیر یا کہ شر
منظر یہ آج بند ہے کس کی نگاہ پر؟

ہاں وہ کہ جس کی آنکھ تعصب شعار ہے
ہاں وہ کہ جس کو صرف اَنا کا خمار ہے
ہاں وہ کہ جس کا عیشِ جہاں پر مدار ہے
ہاں جس کا دشمنانِ خدا میں شمار ہے

وہ دیکھتا بھی ہے تو شقاوت کے رنگ میں
کرتا ہے ذکر اس کا عداوت کے رنگ میں

یوں دیکھنے سے مٹ نہیں سکتا صفا کا رنگ
کہسار کو جلا نہیں سکتے شرارِ سنگ
پیدا جو ایک بار ہو ایمان کی اُمنگ
کائی سے بڑھ کے کچھ نہیں دریائوں کے نہنگ

گَر جاگ جائے تجھ میں بصیرت نگاہ کی
گرمی ترے وجود میں ہو مہر و ماہ کی

کر یاد تُو حسینؓ کا پیغامِ لاتخف
ظلم و ستم کے سامنے سب سے بڑا ہدف
اُٹھا مقابلے میں جو وہ مردِ سربکف
ساری مصاف گاہِ ستم تھی شکستہ صف

توقیر دیکھ کر ہدفِ نارسیدہ کی
قسمت اُلٹ گئی تھی خدنگِ کشیدہ کی

سوچ، اور دیکھ فکرِ بصیرت نگاہ سے
نسبت شجر کو دیتے نہیں برگِ کاہ سے
فرشِ قدم کو کیا ہو علاقہ، کلاہ سے
سمجھیں تو کیا ہے واسطہ ذرّے کو ماہ سے

کیا مختلف حدیں ہیں گمان و یقین کی
کچھ شان اور ہی ہے پیمبرؐ کے دین کی

اَطرافِ کائنات میں جس کا ظہور ہے
وہ، جس کا دین سلطنتِ بے ثغؤر ہے
جو رُوح، زندگی کی ہے، جاں کا سُرور ہے
جس کا وجود قلب و نظر کا حضور ہے

وہ جلوۂ حسیں ہے زمانوں کا پیرہن
اُس نورِ کفر پاش سے ایماں ہے ضو فگن

رکھ، بے گیاہ دشت کا منظر نگاہ میں
کیا ولولے تھے قطرۂ قلزم پناہ میں
دل، سینۂ شجر کا، دھڑکتا تھا کاہ میں
جمعیتِ حسینؓ کی منزل تھی راہ میں

صحرا شہادتوں کو اگر بے قرار تھا
سادات میں بھی حوصلۂ کوہسار تھا

مجھ کو وہ کیوں نہ رزمِ ابد گیر یاد ہو
جس کا اثر، کمالِ سیادت پہ صاد ہو
لرزیدہ جس کمال سے رُوحِ فساد ہو
سمجھے گا کیا جو کج نظر و کج نہاد ہو

اس معرکے سے زندہ ہے تفریقِ خیر و شر
یہ معرکہ دلیل تھا عزمِ جہاد پر

تکذیب کفر اور، فساد اور چیز ہے
مذہب ہے اور، بغض و عناد اور چیز ہے
جہد اور جہدِ ابن زیاد اور چیز ہے
کارِ جنوں ہے اور، جہاد اور چیز ہے

یہ سُنتِ رسول ؐ ہے، کوئی جنوں نہیں
چنگیزیت کا سلسلۂ کشت و خوں نہیں

ممکن نہیں ہے کارِ جہاد امن کے خلاف
کس پر نہیں اس ایک حقیقت کا انکشاف
بڑھتا ہے رُوے ارض پہ غارت کا جب طواف
جب ظلم کا ہو معبدِ دہشت میں اعتکاف

ہر سمت پھیل جائیں جو منظر فساد کے
کھلتے ہیں جا کے عقل پہ معنی جہاد کے

کیا ولولہ تھا سبطِ رسالت پناہؐ میں
جذبوں میں دم تھا، رُوح تھی میرِ سپاہ میں
اُمت یہ سرخرو ہوئی اس رَزم گاہ میں
تھی محو، ذکرِ اَشْہَدُ اَنّ لَا اِلٰہ میں

قوموں میں سربلند، ارادوں میں فرد تھی
ایک ایک دل میں ایک ہی تفہیم ِدرد تھی

رنگ اس کا مختلف تھا، خمیر اِس کا ایک تھا
نقشے جدا تھے ، نقشِ حصیر اِس کا ایک تھا
آواز الگ الگ تھی، ضمیر اِس کا ایک تھا
قرآن ایک، ربِّ قدیر اِس کا ایک تھا

ہر چشمِ ترتھی چشمۂ زمزم سے مشکبو
ہر آنکھ کو تھی ایک مدینے کی آرزو

اب حال یہ ہے، خواب ہیں تعبیر سے الگ
فکر و عمل ہیں لذتِ تقریر سے الگ
تقدیر اپنی ناخنِ تدبیر سے الگ
دستِ یقیں ہے دستۂ شمشیر سے الگ

دل ایک ہے، مگر ہیں نگاہیں جدا جدا
منزل ہے ایک، اور ہیں راہیں جدا جدا

خالی ہے نورِ فکر سے اِس کا حریمِ ذات
بے رنگ ہیں فصاحتیں، بے رُوح لفظیات
احوال اس کا نذرِ خرافاتِ سومنات
احساس اس کا سرد ہے، مردہ ہیں حسیّات

اس کی بقا پہ مرگِ حمیت کا رنگ ہے
اس کی فنا پہ دیدۂ افلاک دنگ ہے

ایسی گئی نگاہ سے اندر کی روشنی
رُخصت ہوئی چراغِ مقدر کی روشنی
دُور آنکھ سے ہے سبطؓ پیمبرؐ کی روشنی
ظلمت پسند ہے نئے منظر کی روشنی

دھڑکن نہ کیوں ہو سرد دلِ کائنات کی
دن روشنی سرشت، نگاہیں ہیں رات کی

کھوئی ہوئی ہے فکر ِ خود آگاہ کی نمود
افراد کے ہجوم میں گم میں ہے متاعِ سُود
اک بِھیڑ اور عقدۂ تقدیر کی کشود؟
اِس بِھیڑ سے فنا ہوئی قومیّت ِ ثمود

اس بھیڑ کی ہے آڑ میں یک سر لگی ہوئی
جمہوریت کی بھیڑ برابر لگی ہوئی

چاروں طرف ہے بکھرا ہوا سرحدوں کا جال
ایک ایک کرکے کیوں نہ یہ ملت ہو پائمال
تفریق و انتشار ہے اس کی متاعِ حال
فکر ِ عروج اس کو، نہ کوئی غمِ زوال

اس کے خَم ِکلاہ میں کیا طُمطراق ہے
جمہوریت میں فرد ، غلامی میں طاق ہے

خاموش ہے زباں، لبِ گفتار ہے خموش
ہر ایک منظرِ سحر آثار ہے خموش
بند، آنکھ ہے، نوشتۂ دیوار ہے خموش
منقار زیرِ پر ہے کہ منقار ہے خموش

اک بے حسی کا رنگ ہے طاری زمین پر
دستِ ستم دراز ہے ساری زمین پر

اے روحِ زندگی! نہ سسک جسم و جان میں
آزردہ ہو نہ خیرہ سَروں کے جہان میں
کیا غم جو خیرخواہی نہیں آسمان میں
لغزش قدم میں ہو، نہ پڑے بل زبان میں

اُٹھ اور آسماں پہ کمند اپنی ڈال دے
ظلمت کے مرگ زار پہ سورج اُچھال دے

دریا کی موج موج کو قلزم نظارہ کر
صحرا کا ذرّہ ذرّہ جنوں استعارہ کر
سیّار بن، ثبات سے اپنا کنارہ کر
بے چارگی کو چھوڑ کے جینے کا چارہ کر

افسردگی کی راکھ سے کوئی شرر اُٹھا
پھر چاک چاک دامنِ شب ہو، نظر اُٹھا

دیوار کو، نوشتۂ دیوار کو نہ دیکھ
عصرِ گمان رنگ کی رفتار کو نہ دیکھ
منہ کھولتی فضاے شرربار کو نہ دیکھ
غارت گروں کی پستیِ کردار کو نہ دیکھ

مت دیکھ آسماں کو زمیں کی نگاہ سے
جو دیکھنا ہے دیکھ یقیں کی نگاہ سے

آفاق پر چمک اُٹھیں فردا کے خدّ و خال
لرزاں دلِ وجود میں ہو سایۂ زوال
منزل نما ہو گنبد و محراب کا جمال
ساحل ادا ہو بحر میں گرداب کا جلال

رفعت اثر ہو خاک کی تقدیر سُو بہ سُو
فرشِ زمیں کی عرشِ فلک پر ہو گفتگو

اُبھرے جو لے کے موسمِ خوش طالعی، ہلال
فرخندہ دم ہو اخترِ تقدیرِ ماہ و سال
منزل پہ ہو خجستہ قدم رہ روِ کمال
تابندہ رُخ، ستارہ جبیں ہو وجودِ حال

کھنچ کر گلِ ہبوط سے خوشبو صعود کی
پہنچے پھر آسمان پہ قسمت وجود کی

یہ لشکرِ عناد سرِ کشور و بلاد
اَشرارِ کفر، ظلم کے جھکڑ، یہ گردباد
دم توڑ دے گا وقت کا ہر عنصرِ فساد
زندہ اگر دوبارہ ہُوا حق پہ اعتقاد

بادل کی گڑگڑاہٹیں، بجلی کی اُفت و خیز
دم توڑ جائیں گی، جو چلیں گی ہوائیں تیز

تاہم، یہ شرط ہے کہ عزیمت میں فرد ہو
بے مثل ہو مقال میں، سیرت میں فرد ہو
یکتا ہو رہ بری میں، قیادت میں فرد ہو
یہ فرد فرد قوم، اخوت میں فرد ہو

کر دے جو اپنے پردۂ ظلمت کو چاک چاک
اِمروز سے ہو قسمتِ دیروز تاب ناک

خالد! کتابِ عشق کی تفسیر ہے یہی
بین السطورمیں کہیں تحریر ہے یہی
کھلنے کو ہم پہ عقدۂ تقدیر ہے یہی
اس بار اپنے خواب کی تعبیر ہے یہی

اسلام سے عروج ہو پھر مشرقین کا
پیغامِ انقلاب یہی ہے حسینؓ کا

مچلے گی ایک بار وہی رُوحِ انقلاب
گرداب کے جلو میں ہے ساحل کا اضطراب
پھر سے یہ توڑنے کو سراپردۂ حجاب
موجوں کے مَدّ و جزر میں کھاتی ہے پیچ و تاب

بے رہ رَوی عتابِ الٰہی کی زد میں ہے
غارت گری کا غول تباہی کی زد میں ہے


Related posts

Leave a Comment