تناظر : ایک ماحولیاتی تنقیدی تجزیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ الیاس بابر اعوا ن

تناظر : ایک ماحولیاتی تنقیدی تجزیہ
(An Ecocritical Analysis)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ ماحولیاتی تنقیدی تناظر ادب اور طبیعیاتی ماحول کے مابین تعلق کے مطالعے کا نام ہے:شیرل گلاٹ فلٹی(۱ (ماحولیاتی تنقیدی تھیری یا گرین سٹڈیز دونوں دراصل ایک ہی ہیں۔امریکہ میں اس نظریے کا آغاز ۸۰ کی دہائی اوربرطانیہ میں ۹۰ کی دہائی میں ہُوا۔امریکہ میں اس کی داغ بیل شیرل گلاٹ فلٹی نے ڈالی جس نے ۱۹۹۶ء میں
The Ecocriticism Reader: Landmarks in Literary Ecology
کے نام سے ایکو کرٹی سزم پر مشتمل مضامین کا مجموعہ شائع کیا۔ ۱۹۹۲ ء میں ہی مس چیرل نے اپنی ایک ساتھی کے ساتھ ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جس کا نام تھا ـASLE یعنی:
Association for the Study of Literature and Environment
ماحولیاتی تنقیدی تناظر کے شواہد ہمیں ۱۹۷۰ ء میں ملتے ہیں۔ مائیکل پی برانچ نے اس کی کڑی ولیم راکرٹ کے ۱۹۷۸ ء کے ایک مضمون سے جوڑی ہے جس کا عنوان تھا
Literature and Ecology: An experiment in ecocriticism
سوال یہ ہے کہ ایکو کرٹی سزم کا بنیادی نکتہ نظر کیا ہے؟
ا۔ بنیادی طور پر ایکو کرٹی سزم ادب کا ماحولیاتی تناظر میں تنقیدی مطالعے کا نام ہے۔ خاص طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ تخلیق کار نے اپنی ادبی تخلیقات میں مظاہرِفطرت کی نمائندگی کیسے کی۔
۲۔ ماحولیاتی نقاد ادب میں ماحول سے متعلق دیگر نظریات کو بھی دیکھتے ہیں جن کا براہ ِ راست تعلق فطرت سے نہ بھی ہو، تاہم ذرائعِ پیداوار، انرجی، توازن، وغیرہ کا ماحول کے ساتھ تعلق اور ان کا ادب میں اظہار۔
۳۔ انگریزی میں ایسے تخلیق کاروں کے کام کو نمایاں اہمیت دی جاتی ہے جن میں فطرت سے متعلق کام بہت نمایاں رہا جیسے کہ امریکی ثنویت، برطانوی رومانوی شاعر، جان کلیر کی شاعری، تھامس ہارڈی کی فکشن، جارجین شاعری اور بیسویں صدی کے اوائل کی شاعری۔
۴۔ اس تنقیدی تھیری نے کچھ حقیقی تخلیقی اظہاریے جیسے کہ سفر نامے، یاداشتیں، اور علاقائی ادب کو جغرافیائی تناظر میں گروپنگ کرنے کی آزادی فراہم کی۔
۵۔ ایکو کری ٹی سزم ہمیں سماجی اور لسانی جبر تلے ادبی مطالعے اور تفہیم سے آزاد کرتا ہے اور عالمی سماج کے اخلاقی آدرش تلے متن کے مطالعے کی ترویج کرتا ہے۔
دیکھنا یہ کہ مظاہر فطرت اور فطرت کو ایک تخلیق کار کیسے دیکھتا ہے اور اُسے قارئین کے لیے کس طرح محض ایک تخلیقی شے سے زیادہ ایک تخلیقی جوہر کے سامنے کھتا ہے اور فطرت اور فطرت کے مختلف بیانیے اور اظہاریے سامنے لاتا ہے۔
ابتدائی طور پراختر رضا سلیمی کا ایک شعر پیش کرتا ہوں :

یہ لوگ سیر پہ نکلے ہیں سو بہت خوش ہیں
میں دل گرفتہ ہوں سبزے کی پائمالی پر

اس میں فطرت کو محض حظ کی شے نہیں سمجھا گیا، فطرت اپنی جبلت میں ایک سماجی اور حیاتیاتی توسیعیت ہے۔ ایک ایسا مظہرِ فطرت جو انسان کے متوازی بالکل ویسے ہی پھل پھول رہا ہے جیسے کہ ہزاروں لاکھوں سال کی انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسانی معنویت میں وقت کے ساتھ ساتھ توسیع اور ترفع آیا ہے لیکن دوسری طرف دیگر مظاہرِ فطرت اپنا معنی، اپنا جواز اور اپنا وجود کھو رہے ہیں اور انسان ان کو یکسر بھلا دیتا ہے۔یہ انسان کا مظاہرِ فطرت کے ساتھ ایک غیر متوازن تعلق ہے۔تخلیق کارگھاس جیسے مظہرِ فطرت کو پرسونی فائی(Personify) کرتا ہے اور اسے توسیع دے کر انسان کے متوازی کھڑا کرتا ہے اور اسے روح اور فکر ی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ سبزے کی پائمالی دراصل سبزے کے تخلیقی اور آزاد جوہر کی بے توقیری ہے۔ ایسے ہی تمام مظاہر فطرت کائنات میں عبوری فطری اظہاریے نہیں ہیں بلکہ ان کی Place انسانی Place کی طرح ہے۔پروین شاکر کا ایک شعر ہے:

اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

ایک بوڑھے شجر کا بطور ایندھن استعمال دراصل انسانی زندگی کے لیے لائف لائن ہے، انسانی زندگی کا تقدس بہرحال دیگر تمام مخلوقات سے افضل ہے۔ پروین شاکر نے شجر کا چڑیوں سے تعلق ظاہر کیا ہے کہ انسانی سماج اپنے حیاتیاتی تسلسل کے لیے مظاہرِ فطرت کی قربانی دیتا ہے لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ اس عمل میں وہ فطرت کے ایک پورے دائرے میں دراڑ ڈال رہا ہے، ایک درخت کا کٹنا دراصل پرندوں کے ایک پورے سماج کا کٹنا ہے، انسان کا لمحاتی حظ یا ضرورتوں کے لیے فطرت کی قربانی، اس کی اپنی قربانی ہے۔ یہ مظاہرِ فطرت اس کی اپنی معنوی توسیعیت ہیں لیکن انسان اپنے المیے کے لیے اپنی بائنری (Binary) پرندوں سے بناتا ہے، انسان کا یہ رویہ فطرت کی طرف اس کی مغائرت کہلائے گا۔ جو کہ اس پورے نظام میں عدم توازن کی ایک شکل ہے۔ انسان جب فطرت سے خود کو الگ کرے گا تو فطرت کے مقابل ایک غیر فطری شے کے خود کو پیش کرے گا، اور جب انسان خود کو غیر فطری شے سمجھنا شروع کردے تو سماج میں انسانی قدریں ناپید ہو جاتی ہیں اور کچھ ایسی ہی صورت حال معاصر سماجی منظر نامے کی بھی ہے۔
"تناظر” شاہد ماکلی کا شعری مجموعہ ہے، اس مجموعے میں بہت شاندار شاعری ہے، اس شاعری کا کلی تنقیدی جائزہ معاصر تنقیدی تھیری کے تحت تو ممکن نہیں البتہ اس مضمون میں شاہد ماکلی کے ہاں مظاہرِ فطرت، فطرت کی مخالف بائنریز، سماج اور فطرت کا تعلق، فطرتی اظہاری عوامل کا جائزہ لیا جائے گا۔اس شعر کو دیکھیے:

میں اپنے ابر کو پہچانتا ہوں اچھی طرح
یہ رم جھم اور جہاں کی مرے جہان پہ ہے

پچھلے کئی برسوں سے سماجی بیانیوں میں گلوبل وارمنگ کا بہت تذکرہ ملتا ہے، اس گلوبل وارمنگ کا کوئی اور نہیں انسان خود ذمہ دار ہے، اٹھاوریں صدی کے نصف سے کرہ ارض کا درجہ حرارت محفوظ کیا جا رہا ہے، سو اس لحاظ سے ۲۰۱۶ ء کو دنیا کا گرم ترین سال قرار دیا جا رہا ہے، موسم میں غیر معمولی حدت کی وجہ سے گلیشئرز پگھلنے کا عمل شروع ہوچکا ہے اور خدشہ اس بات کا ہے کہ کہیں یہ شدت سونامی کا باعث نہ بنے۔ ایک تخلیق کار کے ہاں مظاہرِ فطرت کا ایک رومانی تاثر موجود ہوتا ہے۔ رم جھم بارش کی ایک ایسی صورت ہے جس میں ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی ہو، جس میں ایک تخلیق کار ذہن اپنی تخلیقی آوارہ خرامی کے زور پر فطرت کے نئے نئے رنگ تلاش اور اختراع کرے۔ فطرت سے متعلق یہ تصور انسانی فکر میں ایک مستقل تخئیلیے کے طور پر موجود ہے۔ انسان فطرت سے ایک خاص فاصلے اور خاص تعلق کی تفہیم پر جمالیاتی حظ کشید کرتا ہے، وہی سمندر کی لہریں جو انسان کو نہ جا نے کون جہانوں کی سیر کرادیتی ہیں جب بپھر جائیں تو وہ اسے غیر فطری اورناقابلِ یقین لگتی ہیں۔ ایسا ہی شاہد ماکلی کے اس شعر میں دکھائی دیتا ہے کہ تخلیق کار اپنے طبیعیاتی اور مابعد الطبیعیاتی ابر کو پہچانتا ہے، دونوں کے باہم اختلاط کے بعد جو رم جھم برستی ہے وہ ایک غیر فطری، غیر حقیقی اور غیر متاثر کن اظہاریہ ہے، ہمارے ہاں انسانی نفسیات اور موسموں کا تعلق مغرب کے ہاں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے ہاں اگر ٹھنڈی چھائوں ادبی تخلیقات میں ایک ارفع نعمت سمجھی جاتی ہے تو مغرب کے یخ بستہ سماج میں دھوپ حیات بخش استعارہ ہے، ہمارے ہاں بارش کا تعلق ادبی سطح پر رومانس اور زمینی سطح پر ایک ٹریجڈی ہے تو مغرب میں یہی بارش دونوں سطحوں پر ایک نعمت بھی تصور کی جاتی ہے۔ ایکو کرٹی سزم ہمیں ادب کا جغرافیائی ریاضتوں (Practices) میں مطالعے کی فہم دیتا ہے۔ ایسے ہی ہمیں ماحول کے فطری دائرے میں موجود خاموش حیات بخش متحرک ایجنٹس بارے بھی علم ہوتا ہے۔ شاہد ماکلی کا یہ شعر دیکھیے:

وہ رُت، وہ آب و ہوا رہ گئی نہ جانے کہاں
میں جس کی معرفت اپنے ثمر تک آیا ہوں

نمویابی کا عمل ایک خاموش مگر متحرک حیات بخش ایجنٹ کے طفیل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ تخلیقی اور تفاعلی اثمار کا تعلق بھی سماجی، مابعد الطبیعیاتی کلامیوں کا مرہونِ منت ہوتا ہے گویا ان کلامیوں کے لاموجود ہونے سے اثمار کا وجود ایک غیر حقیقی شبیہ بنتا ہے۔شاعر جس متحرک حیات بخش ایجنٹ کے طفیل اپنے ثمر تک پہنچا وہ اپنے اصیل جوہر سے کٹ گئی یعنی لاموجود ہوگئی۔یہ خیالِ محض نہیں ہے، یہ ایک سوچا سمجھا اور بہتر منصوبے کے تحت تخلیق کیا گیا شعر ہے جس میں ظاہر کے اثمار پر حرفِ سوال اٹھایا گیا ہے گویا موجود کے تازہ تر اثمار موجود بھی ہیں یا محض ایک ہائی پر رئیل (Hyper-Real) منظر نامے کی اختراع ہیں، اگر یہ واقعتا موجود ہیں تو ان ایکٹو ایجنٹ کیوں لاموجود ہے۔ یہ خاصا ریشنل تفاعل ہے جو ان تمام فکری اور سماجی بیانیوں کو لاموجود ٹھہراتا ہے جو مرکز گریز ہیں۔جیسے پودا اپنی جڑ کی لاموجودگی پر لاموجود ہے ایسے ہی اس شعر کا اطلاق سماجی ڈسکورس میں بھی Valid ہے۔ ماحولیاتی مباحث کے ماننے والے انسانی وجود کی موجودگی کو ماحولیاتی موجودگی سے مشروط کرتے ہیں، ایک بہتر ماحول ایک بہتر انسان کی شبیہ تخلیق کرتا ہے اور ماحول اپنے ماخذ سے کٹ کر exist نہیں کرتا۔جس طرح یاک دریدا نے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا کہ ماحول میں تین قسم کے جانور موجود ہوتے ہیں : حقیقی، خیالی اور تصوراتی۔ لاکاں کے نزدیک حقیقی جانور، جو کہ قدرتی ماحول کا حصہ ہوتے ہیں کو براہِ راست تجربہ میں نہیں لایا جا سکتا البتہ انسان اپنی زبان اور ثقافت کے ذریعے مراقبے کی سطح پر ان تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اب یہ جو مراقبہ یا عملِ تصور ہے یہ قبل از کلام تصور بھی ہو سکتا ہے، بعد از کلام تصور اور تشکیل ِ تصور بھی ہو سکتا ہے، اور سماجی ثقافتی نمائندگی بھی ہوسکتا ہے۲۔ ایسے ہی شاہد ماکلی کے مجموعے میں فطرت اور ماحول کی جہتیں دکھائی دیتی ہیں، یہاں موسم، درخت، پتے اور منظر حقیقی بھی ہیں جن تک رسائی ہم اپنے لسانی اور ثقافتی بیانیوں کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں، بعد ازمتن بھی کوئی منظر نامہ تشکیل کرسکتے ہیں اور سماجی ثقافتی نمائندگی کا عنصر بھی دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اردو میں درخت سے متعلق جو سماجی ثقافتی امیج ہمارے ذہنوں میں بنتا ہے وہ ماں کا ہے، وہ ٹھنڈک کاہے، وہ کشادگی کا ہے، وہ راحت کا ہے، وہ اجتماعیت کا ہے، وہ سکون اور مسکن کا ہے۔لیکن ان سب کے باوجود درخت ایک درخت ہے جو خود Mother Earth کے حیات بخش متحرک ایجنٹ کے تابع ہے۔ جو خود موسموں، انسانوں اور سب سے پہلے اپنے خالق کے مرہونِ منت ہے۔درخت اپنے سیلف میں ایک غیر متحرک ایجنٹ ہے۔ شاہد ماکلی کا ایک شعر دیکھیں جو پیڑ کے عجز بارے بیان کرتا ہے:

 میں اپنی لاٹھی سے پتے تو جھاڑ سکتا ہوں
میں اِس سے پانی میں رستہ بنا نہیں سکتا

گویا روایتی سطح پر حیات بخش متحرک ایجنٹس کے ہاں محض ایک ـ’’A fertility myth‘‘ کا بیانیہ ہوتا ہے۔ ا س کتھا کو بنیاد بنا کر شعرا نے اردوکو بہت سے اشعار دیے ہیں جو بہت خوبصورت ہیں لیکن ان کے ہاں وہ ماحولیاتی فطری دائرہ لاموجود ہے جو اسے اپنے ماخذ سے جوڑے مثال کے طور پر ڈاکٹر عابد سیال جو غزل کے بہت خوبصورت شاعر ہیں، ان کا یہ شعر دیکھیے:

کفِ خزاں پہ کھلا میں اس اعِتبار کے ساتھ
کہ ہر نُمو کا تعلق نہیں بہار کے ساتھ

اس شعر میں نادر کاری ہے، خوبصورتی ہے تاہم ماحولیاتی بیانیہ اپنی عملی سطح پر نامکمل ہے جس کی وجہ سے یہ شعر اس ہائی پر ر ئیل (Hyper real)منظر نامے کا حصہ بن گیا جو خوبصورت ہے، پر اثر ہے مگر غیر حقیقی ہے۔شاہد ماکلی کے ہاں ماحولیاتی عناصر کے حوالے سے ماخذ سے جڑت کا پہلو اسے ایکو کریٹی سزم کا اہم موضوع بناتا ہے۔ ایسے ہی عادل رضا منصوری نے اسی خیال کو بین المتن کیا ہے، ذرا دیکھیے :

خزاں کا پھول ہوں، لیکن بہار کا آنا
بھلا تو لگتا ہے لیکن اداس کرتا ہے

ہمارے ہاں شاید تخلیقی نادرہ کاری اور عُجب کو انگیخت کرنے کے لیے متنی سطح پر ایک فطری بیانیے کو غیر فطری بنانے کا رواج ہے۔جس سے چونکایا جا سکتا ہے۔لیکن اس سے جو Irreality یا کسی حد تک surreality پیدا ہوتی ہے وہ شاید شعر کی نسبت فکشن میں زیادہ بہتر محسوس ہوتی ہے۔ نثر میں اس کو حقیقی دکھانے کے لیے جادوئی حقیقت نگاری (Magical Realism)کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔جو انتہائی غیر حقیقی ہونے کے باوجود حقیقی دکھائی دیتی ہے جس کی بنیادی وجہ نثر میں کلام کی آسانی اور فراوانی ہے۔شاعری اور خاص کر غزل میں مظاہرِ فطرت کا اس طور غیر حقیقی استعمال مروج ہے اور پسند بھی کیا جاتا ہے۔لیکن ساتھ ہی یہ تخلیق کار کے اپنے سماج کے ہاں غیر حقیقی بیانیے، ساختیں اور امیجز تخلیق کرنے کا باعث بنتا ہے جو بعد ازاں شخصی فرار سے سماجی فراریت (Escapism) کا باعث بنتا ہے۔ شاہد ماکلی کا ایک اور شعر دیکھیے جو اردو ادب میں باغ، سبزے اور پرفضا ماحول سے ایک غیر حقیقی جُڑت کا انکار کرتا ہے اور اسے خالص انسانی اور زمینی سطح پر برتتا ہے، شعر دیکھیے:

ہری کچور فضائوں سے یہ گزرنا مِرا
کہیں کہیں مرے قدموں کو روکتا بھی ہے

ماحولیاتی تناظر کے حوالے سے ایک بات جو اہم ہے، وہ یہ کہ یہ دیکھنا ازحد ضروری ہے کہ تخلیق کار کا جمالیاتی ایقان ماحول کے تجسیمی اظہاریے سے کتنے فاصلے پر ہے۔ یہاں فاصلے سے مُراد ہے،سارے میں پھیلے ہوئے مناظر سے ایک کلی ماحولیاتی دانش کشید کرنا اور اُس سے کٹ کر اپنا الگ انفرادی تجربہ بھی پیش کرنا، جیسے کہ درج ذیل شعر میں ہے :

پنپ رہے ہیں بہ یک وقت مجھ میں دو موسم
جو ایک زرد ہے انِ میں تو اک ہرا بھی ہے

یہاں موسم کا ذیلی تجربہ فطرت اور وجودی تجربے کا انسلاک ہے۔زرد کی بائنری سبز سے ہے، زرد زوال آمادگی کا استعارہ ہے، موت کی علامت ہے جب کہ سبز جوبن، تازگی اور حیات کا استعارہ ہے۔ دونوں کا ایک وجود میں نمویاب ہونا شعری بیانیہ تو ہو سکتا ہے، ایک تجربی حقیقت بہرحال ایک سوال ہے۔لیکن فطرت کی نمو جو ایک مسلسل اور لامتناہی عمل ہے کم از کم اپنے اصطلاحی معنوں میں ہی سہی، اس کے ہاں جمود نہیں، اگر کرہ ارض کے ایک طرف دن ہے تو دوسری طرف رات، ایک خطے میں سرما ہے تو دوسرے خطے میں گرما، ایسے ہی بہار اور خزاں بیک وقت ماحولیاتی عملیت کا حصہ ہیں اور اسی میں حیات کا جوہر مضمر ہے۔ شعری روایت میں زرد کشید کرنے سے مراد اداسی ہے، فسردگی کا تجربہ ہے ایسے ہی کئی شعرا محض نمو اور سبزکی رسائی میں ایک غیر فطری شعری واردات سے گزرتے ہیں جو اتنی ہی غیر حقیقی ہے جیسے کہ ان کا شعرلیکن شاہد ماکلی کے ہاں بطورِ خاص اور اہتمام کے ساتھ فطرت اپنے پورے فطری ڈھانچے کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے ہی ماحولیاتی تنقید میں دیکھنا ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے ماحولیاتی اظہاریے کو کس رخ سے دیکھا ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ اردو شعری روایت میں ہوا کا استعارہ عمومی طور پر ایک حیات کُش جوہر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ عام طور پر ہوا کی بائنری چراغ یا اُس کی لو سے ہی بنائی جاتی رہی ہے۔ حالانکہ چراغ کی لو اور آگ کے لیے ہوا کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا جانداروں کے لیے۔ایک خاص رویے اورطاقت کی ہوا لو اور چراغ کے لیے ایک لائف ایجنٹ ہے، لیکن عمومی طور پر ہوا ایک ناپسندیدہ استعارا ہی بن گئی۔مغرب میں بالکل اس کے برعکس رویہ ہے ہوا کا عمومی استعارہ اور اظہارایک لائف گونگ ایجنٹ (Life-giving Agent)یا حیات بخش عنصر کے طور پر لیا جاتا ہے۔ایسا رویہ ہمیں شاہد ماکلی کے ہاں ملتا ہے شعر دیکھیے:

ہوا کو کیا ضرورت جاننے کی

یہ برگِ سبز ہے یا پیڑ کا دل

ہوا کافطری دائرہ حیات بخش عنصر کی ترسیل ہے اور ایک آزاد فکری ایجنٹ ہے، اور اگر پیڑ کے استعارے کو ڈی کنسٹرکٹ کیا جائے اور اس کا اطلاق سماج، نظام یا کم از کم انسان پر ہی کیا جائے تو یوں ہوگا کہ ہوا ( طاقت، مرکز) اپنے تخلیقی جوہراپنے متعین اور تخلیقی جواہر میں برگ اور دل یعنی تخلیقی اظہاریے ( سماجی بیانیے) اور دل ( آفاقی آدرش یا مہابیانیے)پر اپنے حیات بخش جوہر کا اطلاق یکساں کرے گی۔ یہ قانونِ فطرت ہے، سورج اس کائنات میں نظام کو ایک سا برتتا ہے، اپنی روشنی ایک سی سب کو عطا کرتا ہے۔ ایسے ہی بارش، خوشبو، ہوا اور پانی سب کے ساتھ اپنے ربط بلا کسی تخصیص کے رکھتے ہیں، یہ انسان ہے جو ان کے ساتھ تعلق کی تجدید ِ نو کے نام پرکچھ تعلق منجمد کر دیتا ہے۔ فرض کریں، کائنات ایک دائرہ ہے اور فطرت ا س کا مرکزہ، کائنات اور فطرت کے مظاہر سے ہمارا تعلق انسانی جبلت، ماحولیاتی مظاہر اور ہمارا کلچر طے کرتے ہیں۔ فطرت بذاتِ خود ایک ایسا بیانیہ ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتداد، قبولیت اور توسیع ہے۔ اقبال کا یہ شعر دیکھیں:

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی دما دم صدائے کن فیکون

کائنات کا ایک مختلف رویہ ہمارے ہاں کی صوفی روایت میں بھی ملتا ہے جس میں انسان اور کائنات کو بطور تخلیقی جوہر ایک ہی شے سمجھا جاتا ہے۔ فلسفیانہ سطح پر ایک مرکز گزیر ڈسکورس ہونے کے باوجود انفرادی بیانیوں کی زد پر ہے۔کائنات کا انفرادی تجربہ کیسے کائنات کی کلی تجسیم کرسکتا ہے ؟ اس لحاظ سے ہم ایسے تمام رویوں کو مابعد جدید یت کی بریکٹ میں رکھیں گے۔ لیکن ایمرسن کی درج ذ یل اسٹیٹمنٹ کائنات کی ایک اور تصویر ہمارے سامنے رکھتی ہے، مدر ارتھ اور فادر سکائی کا بیانیہ جو میں کے وجود کا ایقان اور دیگر کا تصور، ایک لحاظ سے سب نیچر ہے:
“All that is separate from us, all which Philosophy distinguishes as the NOT ME, that is, both nature and art, all other men and my own body, must be ranked under this name, NATURE.”
(Ralph Waldo Emerson)
ایمرسن نے نیچر کو انسان اور انسانی حیات کے متوازی ایک حقیقی اظہاریہ تسلیم کیا ہے لیکن ایکو کری ٹی سزم فطرت کو انسان کی توسیع سمجھتی ہے، اسے انسان سے الگ تصور نہیں کرتی اگر ایسا ہو تو فطرت اپنے مرکز سے ہی ہٹ جاتی ہے۔ اہم ثقافت جو علاقائی سطح کی حقیقت ہے لیکن نیچر کا حصہ ہے چوں کہ ثقافت کا وجود انسان کا وجود ہے اور ثقافت کی موت انسان کی موت، حالانکہ انسان کی موت کے باوجود ثقافت کئی صدیوں تک زندہ رہتی ہے :ان کے ہاں نیچر کو برتنے کی علاقائی اور مختلف صورتیں موجود ہو سکتی ہیں۔ بہت سے ثقافتی اظہاریے انسان اور نیچر کو ظاہر کرتے ہیں مثلاً:
 

انسان : جسم۔ رویہ۔ عبادت۔ مزاحمت۔ زندگی۔ موت۔ جمود
ثقافت : لباس۔ اوزار۔ رقص۔ برتن۔ اختلاف۔ زبان۔ تعصب
فطرت : انسان۔ ثقافت۔ توازن۔ ترفع۔ یکسانیت۔ تبدیلی۔ دائرہ

ایسے ہی انسان کا اپنا وجود اور ترفع اس کے جسم کے ہالے سے جڑا ہے اور اس کا زوال بھی۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ کائنات کی نامعلوم وقتوں کی توسیع میں انسان کی جسمانی زندگی کا دورانیہ بہت مختصر لیکن انسانی حیات کا جل بجھنا ایک طرح سے چراغ سے چراغ جلنے کے مترادف ہے ایک انسان کی موت دوسرے انسان کی حیات میں وہی تسلسل منتتقل کرتی جاتی ہے جس کی بنیاد پر آج نیچر قائم ہے۔ میں اس مضمون کا اختتام شاہد ماکلی کے درج ذیل شعرپر کروں گا، جس میں اسی قسم کی بات کی گئی ہے:

کسی کشادہ فضا میں مہک رہا ہوتا
اگر میں جسم سے باہر کہیں کھلا ہوتا

انسانی جسم حیات کا استعارہ لیکن انسان ایک بڑے فطری نظام کا ازل سے حصہ تھا اور رہے گا۔ یہ خالص مذہبی کلامیہ ہے۔ لیکن فطری کلامیے میں اس کا انکار ممکن نہیں۔ چوں کہ مرکز سے ہٹ کا انسانی حیات کا وجود سوالیہ نشان اور انسانی حیات کی تشکیک فطرت کی تشکیک ہے، گویا تمام عالمِ موجود و ناموجو، لاموجود جسے سائنسی بنیادوں پر بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ گویا شاہد ماکلی انسانی جسم سے پرے اس عالم میں اپنے وجودی ترفع کے قائل ہیں جو اس بات کو Establish کرتا ہے کہ فطرت کا ایک ارفع اور تواتر سے حیات بخش نظام کہیں موجود ہے جس سے تمام نظامِ کائنات کی جڑت اور بقا ہے۔
حوالہ جات
۱۔http://www.asle.org/wp-content/uploads/ASLE_
Primer_DefiningEcocrit.pdf
۲۔http://www.indiana.edu/~ctheory/img/
Derrida%20The%20Animal%20That%20Therefore%
20I%20Am%20ch.%203.pdf
۳۔ گلاٹ فیلٹی، شیرل، فروم ہیرلڈ۔ (۱۹۹۶)دی ایکو کریٹی سزم ریڈر: یونیورسٹی آف جارجیئینا پریس
۴۔ فتیحی نسترن (۲۰۱۶) ایکو فیمینزم اور عصری تانیثی اردو افسانہ
۵۔ وال، ڈیرک (۱۹۹۴) گرین ہسٹری۔لندن : ڑٹلیج
۶۔ ماکلی، شاہد۔ (۲۰۱۶)تناظر : لاہور : الاشراق

Related posts

Leave a Comment