تھا کوئی خوف، لیکن واہموں جیسا
وہ حال اپنا برستے بادلوں جیسا
کوئی بھی اس مکاں میں اب نہیں رہتا
زمیں پر کیا ہوا ہے حادثوں جیسا
بکھرنے جو نہیں دیتا مجھے، ایسا
ہے کیا ماں کی دعا میں حوصلوں جیسا
وہی ہیں خون کے رشتے،وہی گھر ہے
مگر ہے درمیاں کچھ فاصلوں جیسا
کہانی میں سفر کی درج ہے ناصر
سڑک پر کچھ پڑا تھا آبلوں جیسا
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...