وجود کی خبر نہیں، عدم سے آشنا نہیں
ہمارے پاس کچھ نہیں، ہمارے پاس کیا نہیں
اہانتوں کے گھاؤ تھے، گذشتگاں کے داغ تھے
کبھی کے مر چکے ہیں ہم، مگر یہ واقعہ نہیں
وجود کی جڑوں میں گھر بنا لیا تھا خوف نے
ہم اُس کی نذر ہو گئے جو حادثہ ہوا نہیں
یہ علتی بہ ذاتِ خود ہے فتنہ ساز، دیکھ لو
جہاں جہاں بشر نہیں، وہاں وہاں خدا نہیں
نظر، شعور، حسن، وقت۔۔۔ کیا بہم نہیں یہاں
مسافروں کی چھوڑیے، یہ راستا برا نہیں
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...