آنکھ کا پردۂ نم ناک ہے خاک
از زمیں تا سرِ افلاک ہے خاک
یوں تو ہر آن لہو سا چھلکے
دل کہ درپردۂ صد چاک ہے خاک
آدمی کا ہوئی پیراہنِ جاں
کس قدر سرکش و چالاک ہے خاک
ہر قدم رہتی ہے زنجیر بپا
کیوں تری زلف کا پیچاک ہے خاک
ایک تو ہے کہ ہَوا ہے کوئی
ایک میں ہوں، مری پوشاک ہے خاک
پائوں سے نکلے تو سر تک پہنچے
کیا سمجھتے ہو میاں، خاک ہے خاک
Related posts
-
سید آل احمد ۔۔۔
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے... -
حفیظ جونپوری ۔۔۔۔ صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے جاؤ بھی اب تم مرے کس کام کے ہاتھا... -
مرزا غالب ۔۔۔ جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا سویدا تا بلب زنجیر سے دودِ سپند آیا...