عجیب خوف سا طاری ہے گھر بدلتے ہوئے میں سر اُٹھا نہ سکوں گا گلی میں چلتے ہوئے Un étrange vertige m’envahit en quittant ce toitJe n’oserai lever les yeux, marchant sous leur loi Ein seltsames Zittern beim Wechsel des HeimsMit gesenktem Blick geh’ ich durch Straßen aus Schweigen und Reims 家を変えるたびに不安が染みる、この街を歩くとき、顔を上げられない自分がいる。 搬家时有种莫名的恐惧,走在街上,我不敢抬头望去。 घर बदलते वक़्त अजीब सा डर है मन में,गली से गुज़रते हुए नज़रें झुकी रहेंगी धरती की चुप्पी बन के।
Read MoreTag: غلام حسین ساجد
غلام حسین ساجد
لہو کا رنگ ہوں میں، آئنے کا خواب ہوں میں اسے خبر ہی نہیں کس قدر خراب ہوں میں
Read Moreغلام حسین ساجد
بھٹک کر آئی تھی کچھ دیر کو ادھر دنیا لپٹ گئی مرے دل سے کسی بلا کی طرح
Read Moreغلام حسین ساجد
کبھی گریز سے خائف ، کبھی تجاوز سے مرا رقیب مجھے اپنے اندروں سے ملا
Read Moreغلام حسین ساجد
کیسے میں پاؤں توڑ کے گھر میں پڑا رہوں آوازِ دوست پھر کسی جنگل سے آئی ہے
Read Moreغلام حسین ساجد
اُن کو پانے کی تمنا نہیں جاتی دل سے کیا منور ہیں ستارے مری تابانی سے ؟
Read Moreغلام حسین ساجد
روشنی دینے لگے تھے مری آنکھوں کے چراغ رات تکتا تھا سمندر مجھے حیرانی سے
Read Moreغلام حسین ساجد
خاک زادوں سے تعلق نہیں رکھتے کچھ لوگ میزبانی سے غرض اُن کو نہ مہمانی سے !
Read Moreغلام حسین ساجد ۔۔۔ جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے
غزل جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے کام لیتا ہوں وہاں نقدِ ثنا خوانی سے روشنی دینے لگے تھے مری آنکھوں کے چراغ رات تکتا تھا سمندر مجھے حیرانی سے کر کے دیکھوں گا کسی طرح لہو کی بارش آتشِ ہجر بجھے گی نہ اگر پانی سے اُن کو پانے کی تمنا نہیں جاتی دل سے کیا منور ہیں ستارے مری تابانی سے ؟ کوئی مصروف ہے تزئین میں قصرِ دل کی چوب کاری سے ، کہیں آئنہ سامانی سے خاک زادوں سے تعلق نہیں رکھتے کچھ لوگ…
Read Moreغلام حسین ساجد ۔۔۔ حاصل کسی سے نقدِ حمایت نہ کر سکا
حاصل کسی سے نقدِ حمایت نہ کر سکا میں اپنی سلطنت پہ حکومت نہ کر سکا ہر رنگ میں رقیبِ زرِ نام و ننگ ہوں اک میں ہوں جو کسی سے محبت نہ کر سکا گھلتا رہا ہے میری رگوں میں بھی کوئی زہر لیکن میں اِس دیار سے ہجرت نہ کر سکا پڑ تا نہیں کسی کے بچھڑ نے سے کوئی فرق میں اُس کو سچ بتانے کی زحمت نہ کر سکا آیا جو اُس کا ذکر تو میں گنگ رہ گیا اور آئنے سے اُس کی شکایت نہ…
Read More