غزل صفتِ سیل ہے تو، پرِ کا ہے میں ہوں سرِ را ہے تو ہے ، سرِ را ہے میں ہوں لبِ جو سوختۂ شبِ ما ہے میں ہوں نظرے ! باہمہ حالِ تبا ہے میں ہوں تری رفتار کا مارا ہوا تیرا اسیر اُمڈ اے موجۂ زُلفِ سیا ہے ! میں ہوں اُسی دیوار کے سائے تلے گریہ کناں گہے گاہے تو ہے ، گہے گاہے میں ہوں مجھے معلوم ہے کوئی نہیں آئے گا مگر ایسا ہے کہ چشم برا ہے میں ہوں
Read More