محمد افتخار شفیع ۔۔۔ کہی اور ان کہی کے درمیان بے سدھ پڑی ایک نظم

کہی اور ان کہی کے درمیان بے سدھ پڑی ایک نظم _____________________________ روپہلے بدن کی سیہ پوش لڑکی یہ کیا کہہ دیا تم نے خاموش لڑکی یہ کیاکہہ دیا تم نے شفاف لہروں میں پڑتے ہوئے نیلگوں عکس کو ایک موجِ قدآور کےہوتے ہوئے رقص کو یہ کیاکہہ دیا تم نے جنگل کی بارش میں سہمی ہوئی بھیگتی مورنی سے مرے سازِ خاموش کی ان کہی راگنی سے یہ کیا کہہ دیا تم نے وشنو کی رنگت کواوڑھے ہوئے نیلے موسم کے دلدادہ اک اجنبی شخص کو رفاقت کےلمحات میں…

Read More

سعید سادھو … میں کیونکر نظم کہتا ہوں

"میں کیونکر نظم کہتا ہوں” غزل پابند کرتی ہے مجھے بس نظم ہی آزاد رکھتی ہے کسی پیچیدہ جُوڑے میں اُڑس لینا گُلابوں کا مجھے اچھا تو لگتا ہے کھُلے بالوں کا لہرانا مکمل نظم جیسا ہے ۔۔۔ میں چڑیا گھر میں سارے جانور تو دیکھ لیتا ہوں مگر جنگل کی ۔۔۔۔ سائَیں سائَیں ۔۔۔۔۔ سائِیں اور ہوتی ہے ۔۔۔ اے شالا مار کی ترتیب۔۔۔!!!!! تجھ میں بیٹھتا ہوں تو مجھے ناران بے ترتیب کیونکر ہانٹ کرتا ہے کہ بے ترتیب چیزوں میں بھی آخر کوئی تو ترتیب  ہوتی ہے…

Read More

علی اصغر عباس … عدم آباد!

عدم آباد! میں نے زندگی کے جھروکے سے جھانک کر دیکھا تو حیات ہمیشگی کا لباس پہنے عدم آباد کے صحن میں ابد کے بے پایاں پیڑ کی شاخ پہ دوام کی پینگھ جھول رہی تھی دور لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے پر خاک کے قضا رسیدہ وجود غرور میں تنی گردنوں کے بوجھ سے آزاد مٹی کا غبار ہو چکے تھے جاودانی کا زعم اجل کے کیڑے نے کھا لیا تھا نوشتہ تقدیر کے حروف اُڑچکے تھے ثبات کا نیا شمارہ انسانیت کے گلیز پیپر پہ پوری آب و…

Read More

صہیب اکرام ۔۔۔ ادراک

ادراک عمر بھی کی کاہشِ بےغم کے خوگر اس جہانِ بےبصر میں ہم کہاں تک اپنے دل میں خاک ہوتی بستیوں کے دکھ سمیٹیں بین کرتی خواہشوں کی بھیڑ میں روز اک تازہ لحد کی باس لے کر کب تلک پھرتے رہیں گے دربدر پیشتر اس سے کہ یہ ساری متاعِ بے ہنر خاک میں مل جائے ہم فرض کر لیں یہ جہانِ بےبصر اک گلشنِ نوخیز ہے اور اس کے سب طیورِ خوشنوا کی رنگ برنگی بولیوں سے لفظ کچھ دامن میں چن کر صفحۂ خوابِ بشارت پر الٹ…

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ رات کی رات

رات کی رات ۔۔۔۔۔۔۔ شام اُتری بدن پر حسیں لمس کے پھول کِھلنے لگے قرب کی لو سرہانے سرہانے جلی خواب گاہوں کے پیچھے ہواؤں کے پرنرم خوابوں کی آہٹ سے ملنے لگے شام اُتری بدن پر حسیں لمس کے پھول کھلنے لگے دھیرے دھیرے رواں کاروانِ فلک پر ستاروں کے جھرمٹ میں ڈوبی ہوئی رات جانے لگی چاہتوں کی ہوا سرسرانے لگی بند کمروں میں کھڑکی کے پردے اُٹھے ساعتِ سحر نے ادھ کھلی چشم کو خواب سے جاگنے کا اشارہ دیا صبح کی بارگاہوں میں ننھی کرن روشنی…

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ از رفتہ! (نثری نظم)

از رفتہ! (نثری نظم) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں کی طرف جاتا  راستہ یادوں سے اٹا پڑا تھا کھیتوں  کی پگڈنڈیوں پہ دوڑتا بچپن درختوں کے تنوں سے لپٹا لڑکپن شاخوں پہ جھولتا شباب شام کے سرمئی سایوں میں فصلوں کی اوٹ میں نادانیوں کے رنگ اوڑھنی کے پلو سے جھلکتے نوخیز حسن کی شرمیلی مسکان آج میری گاڑی سے اڑتی مٹی کی دھول بنے آنکھوں کے غبار میں شامل  ہوکے پلکوں پہ جم رہے تھے گاڑی کے ساتھ دوڑتا وقت تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا بیک مرر میں ازرفتہ…

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ طفلِ ناداں!

طفلِ ناداں! ۔۔۔۔۔۔۔ واہمہ زاد محبت سے شرابور ہوا تخلیہ چھان کے نکلا تھا بھری محفل سے رخشِ امروز پہ رفتہ کا لدا بوجھ بھی تھا کبر کی زین میں اڑسے ہوئے فتراک میں تیر در گذر،زہر  کی پڑیا تھا جسے نخوت سے خود فریبی ہی کے تالاب کے گدلے پن میں عالمِ غیظ میں پھینکے ہوئے عرصہ گذرا اسپِ امروز بدکتا ہوا دیکھا سب نے لاف زن پھر بھی نگہ دارِ تماشا  نہ ہوا ہاں مگر ایک زمانہ کہ تماشائی تھا آتشِ عشق کوگلزار سمجھنے والا جانتا تھا کہ…

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ سوختہ جاں

سوختہ جاں ۔۔۔۔۔۔۔ گرفتِ شب سے نکلتے ہوئے جو سورج سے سوال پوچھا کہ راتیں کہاں گزارتے ہو سنہری چاندنی کی جھالریں ستاروں سی رداِےگردوں میں چپ چاپ ٹانک جاتے ہو کنارِ بامِ افق پر صلیب پر لٹکا اندھیرا عالمِ ہو کی دراز باہوں میں کبیدہ وقت  کی سرگوشیوں میں دم توڑے ہماری  رات کی تنہائیوں کے موسم میں نہالِ تن پہ اذیت کے پھول کھلتے ہیں لبوں کی شاخ پہ برگِ صداےکرب کے ساتھ کسی کی یاد بھی یوں بور بور جھڑتی ہے کہ خاک زاد بدن بھی غبار…

Read More