شکیب جلالی

اک نقرئی کھنک کے سوا کیا ملا شکیب ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے

Read More

انفرادیت پرست ۔۔۔ شکیب جلالی

انفرادیت پرست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک انساں کی حقیقت کیا ہے زندگی سے اسے نسبت کیا ہے آندھی اٹھے تو اڑا لے جائے موج بپھرے تو بہا لے جائے ایک انساں کی حقیقت کیا ہے ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے سامنے ہو پہ کنارا نہ ملے ایک انساں کی حقیقت کیا ہے کُند تلوار قلم کر ڈالے سرد شعلہ ہی بھسم کر ڈالے زندگی سے اسے نسبت کیا ہے ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

Read More

شکیب جلالی

  خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں کبھی چراغ بھی چلتا ہے اس حویلی میں یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں جھکی چٹان، پھسلتی گرفت، جھولتا جسم میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں زمانے بھر سے نرالی ہے آپ کی منطق ندی کو پار کیا کس نے اُلٹی کشتی میں جلائے کیوں اگر اتنے ہی قیمتی تھے خطوط کریدتے ہو عبث راکھ اب انگیٹھی میں عجب نہیں جو اُگیں یاں درخت پانی…

Read More