لہو میں عکسِ دیرینہ کی جھلمل ڈل سے آتی ہے
ہم اُس خوشبو میں رہتے ہیں جو حضرت بل سے آتی ہے
کوئی آواز پیہم وقت کی اوجھل سے آتی ہے
نویدِ صبحِ نصرت آنے والے کل سے آتی ہے
نگہ دارِ اخوت ہیں جواں اُدھڑے ہوئے سینے
یہ کیسی سرخ رو مٹی ہے جو مقتل سے آتی ہے
نکل سکتے ہیں استصوابِ رائے سے کئی رستے
عدو کو موت لیکن مسئلے کے حل سے آتی ہے
مگر اقوامِ عالم کی گراں گوشی نہیں جاتی
لہو کی چاپ ورنہ ہر گزرتے پل سے آتی ہے