میں ایک بے برگ و بار منظر کمر برہنہ میں سنسناہٹ تمام یخ پوش اپنی آواز کا کفن ہوں
محاذ سے لوٹتا ہوا نیم تن سپاہی میں اپنا ٹوٹا ہوا عقیدہ اب آپ اپنے لیے وطن ہوں
میں جانتا تھا گھنے گھنے جنگلوں کے سینے میں دفن ہے جومتاعِ نم وہ کسی طرح بھی نہ لا سکوں گا
میں پورے دن کی چتا جلا کر چلا ہوں گھر کو کہ جیسے سورج کے پیٹ میں ٹوٹتی ہوئی آخری کرن ہوں
مرا کوئی خواب تھا جسےمیں سجا چکا ہوں بڑی نفاست سےاپنے دیرینہ شہر کے سارے آئینوں میں
میں نام سے اک جُڑا ہوا شخص طے شدہ شخص ایک پہچان کے علاوہ نہ اب صدا ہوں نہ اب سخن ہوں
کہیں مری گرد لے اُڑی ہے مرے فسانے کہیں کوئی رنگ لے اڑا ہے مرے حسیں بے بہا خزانے
کہیں کسی کی نگاہ میں فکرِ رایگاں ہوں، کہیں کسی کی نگاہ میں رونقِ فضاےہزار فن ہوں
عدم زوال ایک تیرگی ہے کسی اُفق سے سحر نہ ہر گز طلوع ہو گی کہاں تلک منتظر رہو گے
کہ میرے سینے میں لاکھوں شمعوں سا ہے الاؤ مجھی سے یہ روشنی نکالوکہ اک یہاں میں ہی شب شکن ہوں