دُھوپ کی، ریت کی، تنہائی کی، ویرانی کی
ہم نے اِک عمر ترے غم کی نگہبانی کی
سایۂ دار اِدھر، سایۂ دیوار اُدھر
چھائوں ڈھلتی ہی نہیں جرمِ تن آسانی کی
عشق کاغذ کو بھی دیمک کی طرح چاٹ گیا
خاک چھانے نہ ملی، دھاک سخن دانی کی
صبح سے، شامِ شفق رنگ کا رستہ پوچھا
راہ تکتی رہیں آنکھیں تری طغیانی کی
یہ کرم آپ کیا اہلِ رضا پر، تُو نے
ہمیں زحمت ہی نہ دی سلسلہ جنبانی کی