ہاتھ سے لَے نکل گئی، شور میں ضربِ ذات کے
ہم ہی تو گُر تھے، ہم ہی سَم، زمزمۂ حیات کے
کوئی مہک نہ چن سکا، کوئی چٹک نہ سن سکا
پھول بھلا دکھائے کیا؟ بھائو سبھائو ذات کے
گھر میں نہ اک چھدام تھا، چاند چراغِ بام تھا
چاند کی چھائوں دھر دیا، ہم نے بھی سوت کات کے
ہم تھے گرفتہ سر اگر، تم تھے شکستہ پر، مگر
چل دیے ہاتھ ڈال کر، ہاتھ میں کائنات کے
رقص شعار ہو گئے، رزقِ مدار ہو گئے
ہم تو فقط حصار تھے، مرکزۂ ثبات کے
قیدیٔ صبح و شام تھے، حلقہ بہ پا غلام تھے
ہم تو فقط عوام تھے، مملکتِ حیات کے
ہم کو لگا کہ ہم نہیں، ناچ اُٹھے کہ غم نہیں
نفی میں بھی تھے رقص گر، رنگ رُخِ ثبات کے
خشک نہ سطرِ نم ہوئی، بابِ حدیثِ غم ہوئی
کاغذِ سادہ پر کھِلے، رنگ قلم دوات کے
عکسِ جمالِ مستقل، کھینچ کے رہ گئے خجل
ہم کہ یہاں تھے میہماں، ایک دن ایک رات کے