دیارِ آزر و بہزاد و مانی سے چلے جائیں
ہم اکثر سوچتے ہیں اِس کہانی سے چلے جائیں
ہمیں مٹی سے چھپنے کا ہنر آتا نہیں، شاہا!
وگرنہ ہم بھی تیری راجدھانی سے چلے جائیں
تو دریا ہے، تجھے اب کیا کہیں ہم اِذن کے قیدی
اکیلے ہوں تو ہم تیری روانی سے چلے جائیں
لہو کب سے کسی بابِ خفی کی جستجو میں تھا
چلو اب اس فشارِ بد گمانی سے چلے جائیں
بدن میں گر رہی ہے اوّلیں اِقرار کی شبنم
شناور! اس جحیمِ لازمانی سے چلے جائیں