رخسانہ صبا … چشمِ فردا کے لیے اور تو کیا لائی ہوں میں

چشمِ فردا کے لیے اور تو کیا لائی ہوں میں
ہجر کا لمحہِ سفاک اٹھالائی ہوں میں

میری آنکھوں میں جو بھردی تھی تری قربت نے
بس اسی ریت سے اک دشت بنا لائی ہوں میں

جانتی تھی کہ کھلیں گے نہ کبھی بند کواڑ
رایگانی کے لیے اپنی صدا لائی ہوں میں

کوزہ گر خود مری شوریدہ سری میں گم ہے
اپنی مٹی کے لیے چاک نیا لائی ہوں میں

تو یہ سمجھا کہ مجھے تیری طلب ہے لیکن
تیرے ہونٹوں کے لیے حرف دعا لائی ہوں میں

جس نے ہر بار مرے خواب کیے ہیں نیلام
اسی دنیا کے لیے نیند بچا لائی ہوں میں

میرے خالق نے تو لکھا تھا چراغوں میں مجھے
اپنے ہمراہ مگر تیز ہوا لائی ہوں میں

Related posts

Leave a Comment