عنبرین خان ۔۔۔ میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی

میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی
ان سے پڑھ لیتی ہوں سب شوق کی رمزیں اس کی

گل کروں کیسے یہ جلتی ہوئی شمعیں اس کی
میری یادوں سے بندھی ہیں سبھی شامیں اس کی

صورتِ صبحِ بہاراں ہے سراپا اس کا
موجِ خوشبو کی طرح ہیں سبھی باتیں اس کی

ضبط جتنا بھی کروں حوصلہ جتنا بھی رکھوں
بعض اوقات رُلا دیتی ہیں یادیں اس کی

میری کھڑکی سے چلی آتی ہیں خاموشی سے
صبح کے نور سے پہلے ہی وہ کرنیں اس کی

جس کی تابانی سے روشن ہے افق سوچوں کا
صبحیں اس کی ہیں مری اور یہ شامیں اس کی

آج تڑپا ہے تو پلٹا ہے مرے دل کی طرف
جانے کس درد میں یوں برسی ہیں آنکھیں اس کی

ضبط کیا سیکھے جسے ہجر رلائے ہر وقت
آہیں کیا روکے جسے ڈستی ہیں سوچیں اس کی

ڈوبنے سے نہ مجھے روک سکیں گے ساحل
ہیں بھنور اس کے یہ جل اس کا یہ موجیں اس کی

عنبرین اس کی وفاداری پہ نازاں ہوں میں
جھکی رہتی ہیں مرے نام پہ پلکیں اس کی

Related posts

Leave a Comment