تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کرو گے
مَیں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو مَیںمسکرایا تو کیا کرو گے
مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لیے بھی سوچا مَیں یاد آیا تو کیا کرو گے
کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ، مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو، مَیں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ، لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو، بگڑ کے قابلؔ سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے