کچھ کارِ عناصر تہہِ دریا بھی عجب ہے
اِس خاک میں پنہاں کوئی شعلہ بھی عجب ہے
دُنیا سے کچھ ایسا بھی نہیں ربط ہمارا
سنتے ہیں مگر لذتِ دنیا بھی عجب ہے
ہے دل ہی کسی آرزوئے وصل کا مسکن
دل کا مگر اس راہ پہ آنا بھی عجب ہے
وہ دید ہے اب عالمِ موجود سے آگے
اس ساعتِ مسعود کا دھوکا بھی عجب ہے
طے ہوتی چلی جاتی ہے بے فیض مسافت
اس راہ میں دیوار کا آنا بھی عجب ہے
کھلتا نظر آتا ہی نہیں ہے گُلِ اُمید
جاتا ہی نہیں دل سے یہ دھڑکا بھی عجب ہے
اس زیست پہ صحرا کا گماں تک نہیں ہوتا
اے نخلِ محبت! ترا سایہ بھی عجب ہے