مسعود احمد ۔۔۔ ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں

ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں
یہ کیسے دن ہمارے پھر رہے ہیں

کسی سے جیت کر اتنے فسردہ
کہ جیسے جنگ ہارے پھر رہے ہیں

لگا رکھا ہے دنیا بھر کو آ گے
مگر پیچھے تمہارے پھر رہے ہیں

انہی پیڑوں کے نیچے بیٹھتے تھے
یہیں پر لے کے آ رے پھر رہے ہیں

وہیں پھر پھر پھرا کر آ گیا ہوں
وہی سارے کے سارے پھر رہے ہیں

منافع خور اتنا ہو چکا ہوں
تعاقب میں خسارے پھر رہے ہیں
کہانی عمر پوری کر چکی ہے
مگر کردار سارے پھر رہے ہیں

وہ ٹھاٹھیں مارتا دریا کہاں ہے
کنارے ہی کنارے پھر رہے ہیں

فلک کا رنگ نیلا پڑ گیا ہے
زمیں پر چاند تارے پھر رہے ہیں

میاں دلی یہ وہ دلی نہیں ہے
کہاں غالب بچارے پھر رہے ہیں

وہ ، تشبیہوں کا جادو گفتگو میں
لبوں پر استعارے پھر رہے ہیں

Related posts

Leave a Comment