معین ناصر ۔۔۔ کاروبارِِ عتاب ہونا ہے

کار و بارِ عتاب ہونا ہے
اب فقط احتساب ہونا ہے

کون،کب،کس طرح رہا، یارو!

روزِ محشر حساب ہونا ہے

خواب میں کل مجھے لگا ایسے

عشق اُن سے، جناب! ہونا ہے

پھر رہا ہوں گلی گلی جیسے

اب مجھے بس خراب ہونا ہے

میں ہوں اپنی تلاش میں ناصر

کم سے کم دستیاب ہونا ہے

Related posts

One Thought to “معین ناصر ۔۔۔ کاروبارِِ عتاب ہونا ہے”

  1. Sohail Rehan

    Mjhe b apna aap ek din shona hai! 😅

Leave a Comment