سفر کی دھوپ میں آگے ، سراب سا کچھ ہے
چھلک پڑا ہے جو آنکھوں سے ، خواب سا کچھ ہے
اسی کو علم ہے اس رات کی طوالت کا
وہ جس کے سینے میں اک آفتاب سا کچھ ہے
یہ جس مقام پہ لائی ہیں گردشیں ہم کو
یہاں قیام تو شاید عذاب سا کچھ ہے
میں خود کو ٹھیک سے ، اک بار پھر بناٶں گا
میں جانتا ہوں کہ مجھ میں خراب سا کچھ ہے
بنا رہا ہے تصاویر سی وہ باتوں کی
سو گفتگو میں وہی کامیاب سا کچھ ہے
اُلٹ رہا ہے مسلسل ورق زمانوں کے
وہ حرف حرف میں اپنے ، کتاب سا کچھ ہے
کلام کرنے لگا اب سکوت بھی اس کا
سو ایک ایک سخن لا جواب سا کچھ ہے
وہ بھیجتا ہے ادھر بھی چراغ و گل اطہر
کہ اس کی سمت میں اپنا حساب سا کچھ ہے