رقص ۔۔۔۔ ن۔م۔ راشد

رقص
۔۔۔۔
اے مری ہم رقص! مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں مَیں
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی
ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے مرا
اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!

اے مری ہم رقص! مجھ کو تھام لے
رقص کی یہ گردشیں
ایک مبہم آسیا کے دور ہیں
کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا جاتا ہوں مَیں!
جی میں کہتا ہوں کہ ہاں،
رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیش تر
کلفتوں کا سنگریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے!

اے مری ہم رقص! مجھ کو تھام لے
زندگی میرے لیے
ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں
اے حسین و اجنبی عورت! اسی کے ڈر سے مَیں
ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب
جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
تو مری اُن آرزوؤں کی مگر تمثیل ہے
جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک!

اے مری ہم رقص! مجھ کو تھام لے
عہدِ پارینہ کا مَیں انساں نہیں
بندگی سے اس در و دیوار کی
ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں!
اس لیے اب تھام لے
اے حسین و اجنبی عورت! مجھے اب تھام لے!

Related posts

Leave a Comment