سلسلے سوالوں کے ۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی

سلسلے سوالوں کے
۔۔۔۔……۔۔۔۔۔۔۔
دن کے چہچہوں میں بھی رات کا سا سنّاٹا
رات کی خموشی میں جیسے دن کے ہنگامے
جاگتی ہوئی آنکھیں، نیند کے دھندلکوں میں
خواب کے تصوّر میں اک عذابِ بیداری
روز و شب گزرتے ہیں قافلے خیالوں کے
صبح و شام کرتے ہیں آپ اپنی غم خواری
ہم کہاں ہیں؟ ہم کیا ہیں؟کون ہیں مگر کیوں ہیں؟
ختم ہی نہیں ہوتے سلسلے سوالوں کے

چشمۂ ہدایت ہے علم کے صحیفوں میں
فن کے شاہکاروں میں اک چراغِ عرفاں ہے
مرحمت کے ساماں ہیں ان کی بارگاہوں میں
مفت جو لُٹاتے ہیں اب بھی اپنی دانائی
رزم گاہِ ہستی میں اپنوں اور غیروں نے
جس سے روشنی پائی، جو عمل کی راہوں میں
کتنے کم نگاہوں کی مشکلوں میں کام آئی

ہم نے ان چراغوں کو، ہم نے اِن صداؤں کو
اپنی خواب گاہوں میں بارہا بلایا ہے
حال سب سنایا ہے اپنی آرزوؤں کا
اپنے دل کے زخموں کا بھید سب بتایا ہے
دو قدم مگر چل کر داغ کچھ نئے ابھرے
پھر خلاۓ بے پایاں، پھر وہی اندھیرے تھے
ہر چراغ سے روٹھی جیسے اپنی بینائی
ہر صدا پہ غالب تھی جیسے اپنی تنہائی

Related posts

Leave a Comment