سنگ میل ۔۔۔ حمایت علی شاعر

سنگِ میل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سینے کے دہکتے ہوئے انگارے کو
اب تو جس طرح بھی ممکن ہو بجھا دے کوئی
اپنی آنکھوں میں بھی ہوں، آنکھ سے اوجھل بھی ہوں
میں گماں ہوں کہ حقیقت ہوں، بتا دے کوئی
دھوپ چھاؤں کا یہ انداز رہے گا کب تک
مجھ کو اِس خواب کے عالم سے جگا دے کوئی
میں ہوں اِس دشتِ طلسمات کا وہ شہزادہ
جس کے سر پر ہے فلک، گنبد بے در کی طرح
میری منزل، مرے سینے پہ لکھی ہے لیکن
اپنی ہی راہ میں ہوں نصب، میں پتھر کی طرح
رہنما ہوں مگر اِک گام نہیں چل سکتا
ایسی اِک ضرب کہ ٹوٹے یہ مسلسل سکتہ

Related posts

Leave a Comment