منطق ، منبر اَور مجمع ۔۔۔۔۔۔۔ شاہین عباس

منطق ، منبر اَور مجمع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آدمی منہ ‘بناتا ہے
جیسے گدھا گھاس کھاتا ہے
دونوں میں منہ کا بنانا ‘
نوالہ چبانا‘
غٹا غٹ پیے جانا دن بھر میں
پانی بھری بالٹی
بالٹی میں ہنگالی پھر اِک بالٹی
رہنمائی کے چالک
رسد سے بھری ،گدلی نسواری کاٹھی
سواری کی دُھن
گارا تعمیر کا‘نعرہ تکبیر کا
اور رسالت کا
کتنی ہی قدریں ہیں جو مشترک ہیں
الف الٹا لکھیں یا سیدھا لکھیں
یہ الف ہی رہے گا!
میاں جی‘ سنا آپ نے؟
قبلہ شاہ صاب ‘دیکھا…..
مرے پنجہ ٔ دست پر اِیستادہ
کھڑی کی کھڑی انگلیاں
تیرتی ڈوبتی
سب الف کے مماثل الف
منہ کا حاصل الف !
ہاں تو کیا کرتا ہے آدمی ؟
مجھ کو منبر کے تینوں دھڑوں کی قسم
منہ بناتا ہے‘
منہ پر بناتا ہے پھرکائناتوں کے نقشے
جبیں پر ستارہ

بھنووں بیچ بچہ جمورا ……
تمدن میں آدھا ، تمسخر میں پورا
چپت دونوں گالوں پہ موجود کی اور عدم کی!
برابر برابر
کہیں ایک ٹھو ڑی دکھاتا ہے چلمن کے پیچھے
منڈیروں پہ رکھی ہوئی سال ہا سال تک ……..
منتظر منتظر‘
اور گد ھا بھی یہی کچھ تو کرتا ہے
بزنس کےچکر میں
اپنی شباہت کا چابک گھماتا ہے
اور پھیل جاتاہے
منڈی کی مندی میں ‘ تیزی سے
جیسے الف میں حمائل الف
جیسے یہ انگلیاں اور یہ گھونسا مرا
یہ رہا میرا گھونسا
دولتی میری وہ اُدھر جا پڑی
آپ لوگوں کی پشتوں پہ
پنڈال کے اُس طرف
پھر مہینے کے کچھ خاص ایام میں
جب گدھا چرنے جاتا نہیں‘ تو
یہی آدمی گھر میں بیٹھا ہوا
کیا سے کیا بڑبڑاتا ہے
کیا پیتا کھاتا ہے
کچھ بھی ہو
زندہ تو رہتا ہے‘ مرتا نہیں
آدمی بھی ، گدھا بھی!!

Related posts

Leave a Comment