دور دیسوں سے بلائے بھی نہیں جا سکتے
وہ پکھیرو جو بھلائے بھی نہیں جا سکتے
تُرش خُو، تیز مزہ پھل ہیں یہاں کے اور ہم
بنا چکھے، بنا کھائے بھی نہیں جا سکتے
حیرتِ مرگ، بلاوا ہے یہ اس جانب سے
جس طرف دھیان کے سائے بھی نہیں جا سکتے
کرچی کرچی کی چبھن سہنا بھی آسان نہیں
خواب آنکھوں سے چھپائے بھی نہیں جا سکتے
کچھ جو کہتا ہوں تو پھر اپنا ہی دل کٹتا ہے
لوگ اپنے ہیں رُلائے بھی نہیں جا سکتے
Related posts
-
سید آل احمد ۔۔۔
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے... -
حفیظ جونپوری ۔۔۔۔ صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے جاؤ بھی اب تم مرے کس کام کے ہاتھا... -
مرزا غالب ۔۔۔ جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا سویدا تا بلب زنجیر سے دودِ سپند آیا...