ارشد معراج ۔۔۔ وہ کوئی اور تھا

وہ کوئی اور تھا
————
روشنی میرے حصے کی تھی
اپنی رفتار کو تیز کر نہ سکی
میں بھٹکتا رہا
اِس طرف اُس طرف

میں کہ صحراؤں میں دھول اُڑاتے ہوۓ
رتھ پہ بیٹھا ہوا
اک شکستہ بدن
کون پہچانتا
میرے کھیسے میں رکھے ہوۓ اُس کی قربت کے ٹکڑے بکھرتے رہے

میں خزاں کی گھنی وادیوں میں
کنویں کی طلب کا سہارا لیے
دم بدم
پا برہنہ رہا

بوجھ بھیجے میں تھا
پر یہ کاندھے مرے
سوتری کی طرح روز کھنچتے رہے
ان پہ رکھا ہوا میرا سر
اِس طرف اُس طرف
یوں ڈھلکتا رہا
جیسے ہنڈولیاں
اور نیندوں بھری رات خالی
نہ کوئی خواب ہے
نہ کوئی ماہ رو
نہ کوئی پیش رو
نہ مغنی مصور نہ شاعر کوئی
نہ مسیحا نہ دردی
نہ عرفان و وجدان و ادراک و دانش
محبت کی لو بھی نہیں
جو سلگنے لگے
نقرئی چاندنی یوں پگھلنے لگے
جیسے دل کے دریچے سے پگھلے لہو
اور رقم ہو کہیں
اک عجب داستاں
جو سنائی نہ ہو
جو سنی بھی نہ ہو

اوہ
نہیں تم نہیں
وہ کوئی اور تھا
جس کے زانو پہ سر رکھ کے میں رویاتھا
پھر ملا ہی نہیں

Related posts

Leave a Comment