قمر جلالوی ۔۔۔ جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم

چھوٹ سکتے ہی نہیں طوفان کی مشکل سے ہم جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے تم، ساحل سے ہم جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم تو نہ رہ جانا کہیں اٹھیں اگر محفل سے ہم وہ سبق آئے ہیں لے کر اضطرابِ دل سے ہم یاد رکھیں گے کہ اٹھے تھے تری محفل سے ہم اب نہ آوازِِ جرس ہے اور نہ گردِ کارواں یا تو منزل رہ گئی یا رہ گئے منزل سے ہم روکتا تھا نا خدا کشتی کہ طوفاں آگیا تم…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ عالم تجھ کو دیکھ رہا ہے کوئی کب پہچانے ہے

عالم تجھ کو دیکھ رہا ہے کوئی کب پہچانے ہے ذرے تک میں تو ہی تو ہے خاک زمانہ چھانے ہے چھاننے دو دیوانہ ان کا خاک جو در در چھانے ہے کوئی کسی کو کیا سمجھائے کون کسی کی مانے ہے میں اور مے خانے میں بیٹھا شیخ ارے ٹک توبہ کر مردِ خدا میں جانوں نہ تانوں مجھ کو تو کیوں سانے ہے مے خانے میں دنیا آئے دنیا سے کچھ کام نہیں جام اسی کو دے گا ساقی جس کو ساقی جانے ہے جام نہ دینے کی…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ بے خودی میں ان کے وعدے معتبر سمجھا نہیں

بے خودی میں ان کے وعدے معتبر سمجھا نہیں وہ اگر آئے بھی تو میں دوپہر سمجھا نہیں اس نے کس جملے کو سن کر کہہ دیا تجھ سے کہ خیر نامہ بر میں یہ جوابِ مختصر سمجھا نہیں اس قفس کو چھوڑ دوں کیونکر کہ جس کے واسطے میں نے اے صیاد اپنے گھر کو گھر سمجھا نہیں تہمتیں ہیں مجھ پہ گمرا ہی کی گستاخی معاف خضر سا رہبر تمہاری رہگزر سمجھا نہیں ہے مرض وہ کون سا جس کا نہیں ہوتا علاج بس یہ کہیے دردِ دل…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ قفس میں محوِ زاری کاہے کو شام و سحر ہوتے

قفس میں محوِ زاری کاہے کو شام و سحر ہوتے اسِیروں کے کسی قابل اگر صیاد پر ہوتے مجھے صورت دکھا کر چاہے پھر دشمن کے گھر ہوتے دم آنکھو میں نہ رک جاتا اگر پیشِ نظر ہوتے چلو بیٹھو شبِ فرقت دعا دو ضبط کو ورنہ مرے نالوں کو سنتے اور تم دشمن کے گھر ہوتے علاجِ دردِ شامِ غم مسیحا ہو چکا جاؤ مریضِ ہجر کی میت اٹھا دینا سحر ہوتے مداوا جب دلِ صد چاک کا ہوتا شبِ فرقت رفو کے واسطے تارے گریبانِ سحر ہوتے قمر…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تو نے

نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تو نے کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے اس کرم کو مری مایوس نظر سے پوچھو ساقی بیٹھا رہا اور اٹھ کے پلا دی تم نے مجھ پہ احساں نہ رکھو جان بچا لینے کا مرنے دیتے مجھے کاہے کو دعا دی تم نے یہ کہو پیشِ خدا حشر میں منشا کیا تھا میں کوئی دور کھڑا تھا جو صدا دی تم نے ان کے آتے ہی مزہ جب ہے مرا دم نکلے وہ یہ کہتے ہوئے رہ جائیں…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ سوزِ غمِ فراق سے دل کو بچائے کون

سوزِ غمِ فراق سے دل کو بچائے کون ظالم تری لگائی ہوئی کو بجھائے کون مٹی مریضِ غم کی ٹھکانے لگائے کون دنیا تو ان کے ساتھ ہے میت اٹھائے کون تیور چڑھا کے پوچھ رہے ہیں وہ حالِ دل رودادِ غم تو یاد ہے لیکن سنائے کون ہم آج کہہ رہے ہیں یہاں داستانِ قیس کل دیکھئے ہمارا فسانہ سنائے کون اے ناخدا، خدا پہ مجھے چھوڑ کر تو دیکھ ساحل پہ کون جا کے لگے ڈوب جائے کون رسوا کرے گی دیکھ کے دنیا مجھے قمر اس چاندنی…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ اپنی زلفیں کیوں سرِ بالیں پریشاں کر چلے

اپنی زلفیں کیوں سرِ بالیں پریشاں کر چلے آپ تو بالکل مرے مرنے کا ساماں کر چلے دیکھ اے صیاد چھینٹے خوں کے ہر تیلی پر ہیں ہم ترے کنجِ قفس کو بھی گلستاں کر چلے دل میں ہم شرما رہے ہیں شکوۂ محشر کے بعد پیشِ حق کیوں آئے کیوں ان کو پشیماں کر چلے اپنے دیوانوں کو تم روکو بہاریں آ گئیں اب کنارہ بابِ زنداں سے نگہباں کر چلے اے قمر حالِ شبِ فرقت نہ ہم سے چھپ سکا داغِ دِل سارے زمانے میں نمایاں کر چلے

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ انھیں کیوں پھول دشمن عید میں پہنائے جاتے ہیں

انھیں کیوں پھول دشمن عید میں پہنائے جاتے ہیں وہ شاخِ گل کی صورت ناز سے بل کھائے جاتے ہیں اگر ہم سے خوشی کے دن بھی وہ گھبرائے جاتے ہیں تو کیا اب عید ملنے کو فرشتے آئے جاتے ہیں رقیبوں سے نہ ملیے عید اتنی گرم جوشی سے تمھارے پھول سے رخ پر پسینے آئے جاتے ہیں وہ ہنس کر کہہ رہے ہیں مجھ سے سن کر غیر کے شکوے یہ کب کب کے فسانے عید میں دوہرائے جاتے ہیں نہ چھیڑ اتنا انھیں اے وعدۂ شب کی…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ ہے سخاوت میں مجھے اتنا ہی اندازۂ گل

ہے سخاوت میں مجھے اتنا ہی اندازۂ گل بند ہوتا نہیں کھل کر کبھی دروازۂ گل برق پر پھول ہنسے، برق نشیمن پہ گری میرے تنکوں کو بھگتنا پڑا خمیازۂ گل خیر گلشن میں اُڑا تھا مری وحشت کا مذاق اب وہ آوازۂ بلبل ہو کہ آوازۂ گل کوششیں کرتی ہوئی پھرتی ہے گلشن میں نسیم جمع ہوتا نہیں بکھرا ہو شیرازۂ گل اے صبا کس کی یہ سازش تھی کہ نکہت نکلی تو نے کھولا تھا کہ خود کھل گیا دروازۂ گل

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ گیسو ہیں ان کے عارضِ تاباں کے ساتھ ساتھ

گیسو ہیں ان کے عارضِ تاباں کے ساتھ ساتھ کافر لگے ہوئے ہیں مسلماں کے ساتھ ساتھ سامان خاک آیا تھا انساں کے ساتھ ساتھ صرف ایک روح تھی تنِ عریاں کے ساتھ ساتھ اے ناخدا وہ حکمِ خدا تھا جو بچ گئی کشتی کو اب تو چھوڑ دے طوفاں کے ساتھ ساتھ اے باغباں گلوں پہ ہی بجلی نہیں گری ہم بھی لٹے ہیں تیرے گلستاں کے ساتھ ساتھ تم میرا خوں چھپا تو رہے ہو خبر بھی ہے دو دو فرشتے رہتے ہیں انساں کے ساتھ ساتھ اہلِ…

Read More