تو کہتا ہے کہ قبضہ ہے یہاں میرا وہاں میرا تو پھر انصاف ہو گا اے بتِ خود سر کہاں میرا چلے آؤ یہاں گورِ غریباں میں نہیں کوئی فقط اک بے کسی ہے جو بتاتی ہے نشاں میرا قمر میں شاہِ شب ہوں فوق رکھتا ہوں ستاروں پر زمانے بھر پہ روشن ہے کہ ہے تخت آسماں میرا
Read MoreTag: استاد قمر جلالوی
استاد قمر جلالوی ۔۔۔ فکریں تمام ہو گئیں برقِ تپاں سے دور
فکریں تمام ہو گئیں برقِ تپاں سے دور خس کم جہان پاک غمِ آشیاں سے دور مژگاں کہاں ہیں ابروئے چشمِ بتاں سے دور یہ تیر وہ ہیں جو نہیں ہوتے کماں سے دور یادِ شباب یوں ہے دلِ ناتواں سے دور جیسے کوئی غریب مسافر مکاں سے دور دیر و حرم میں شیخ و برہمن سے پوچھ لے سجدے اگر کئے ہوں ترے آستاں سے دور اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہے کسے راہ میں غبار کوئی شکستہ پا تو نہیں کارواں سے دور جب گھر سے چل کھڑے ہوئے…
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔ سجدے ترے کہنے سے میں کر لوں بھی تو کیا
سجدے ترے کہنے سے میں کر لوں بھی تو کیا ہو تو اے بتِ کافر نہ خدا ہے نہ خدا ہو غنچے کے چٹکنے پہ نہ گلشن میں خفا ہو ممکن ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہو کھا اس کی قسم جو نہ تجھے دیکھ چکا ہو تیرے تو فرشتوں سے بھی وعدہ نہ وفا ہو انساں کسی فطرت پہ تو قائم ہو کم از کم اچھا ہو تو اچھا ہو برا ہو تو برا ہو اس حشر میں کچھ داد نہ فریاد کسی کی جو حشر کو…
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔ نگاہِ دنیائے عاشقی میں وجودِ دل محترم نہ ہوتا
نگاہِ دنیائے عاشقی میں وجودِ دل محترم نہ ہوتا اگر خدائی بتوں کی ہوتی تو دیر ہوتا حرم نہ ہوتا رہِ محبت میں دل کو کب تک فریبِ دیرو حرم نہ ہوتا ہزاروں سجدے بھٹکتے پھرتے جو تیرا نقشِ قدم نہ ہوتا نہ پوچھ صیاد حال مجھ سے کہ کیوں مقدر پہ رو رہا ہوں قفس میں گر بال و پر نہ کٹتے مجھے اسیری کا غم نہ ہوتا
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔ ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ
ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ عیاں سورج ہوا وقتِ سحر آہستہ آہستہ چٹک کر دی صدا غنچہ نے شاخِ گل کی جنبش پر یہ گلشن ہے ذرا بادِ سحر آہستہ آہستہ قفس میں دیکھ کر بازو اسیر آپس میں کہتے ہیں بہارِ گل تک آ جائیں گے پر آہستہ آہستہ کوئی چھپ جائے گا بیمارِ شامِ ہجر کا مرنا پہنچ جائے گی ان تک بھی خبر آہستہ آہستہ غمِ تبدیلیٔ گلشن کہاں تک پھر یہ گلشن ہے قفس بھی ہو تو بن جاتا ہے گھر آہستہ…
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔ دیکھتے ہیں رقص میں دن رات پیمانے کو ہم
دیکھتے ہیں رقص میں دن رات پیمانے کو ہم ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے میخانے کو ہم لے کے اپنے ساتھ اک خاموش دیوانے کو ہم جا رہے ہیں حضرتِ ناصح کو سمجھانے کو ہم یاد رکھیں گے تمھاری بزم میں آنے کو ہم بیٹھنے کے واسطے اغیار اٹھ جانے کو ہم حسن مجبورِ ستم ہے عشق مجبورِ وفا شمع کو سمجھائیں یا سمجھائیں پروانے کو ہم رکھ کے تنکے ڈر رہے ہیں کیا کہے گا باغباں دیکھتے ہیں آشیاں کی شاخ جھک جانے کو ہم الجھنیں طولِ شبِ…
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔ ان کے لبوں پہ آج محبت کی بات ہے
ان کے لبوں پہ آج محبت کی بات ہے اللہ خیر ہو کہ نئی واردات ہے صرف اک امیدِ وعدہ پہ قائم حیات ہے محشر میں تم ملو گے قیامت کی بات ہے آخر بشر ہوں ہو گیا جرمِ وفا تو کیا کوئی خطا نہ ہو یہ فرشتے کی بات ہے
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔ خشکی و تری پر قادر ہے آسان مری مشکل کر دے
خشکی و تری پر قادر ہے آسان مری مشکل کر دے ساحل کی طرف کشتی نہ سہی کشتی کی طرف ساحل کر دے تو اپنی خوشی کا مالک ہے، کیا تاب کسی کی اف جو کرے محفل کو بنا دے ویرانہ ویرانے کو محفل کر دے اس رہروِ راہِ الفت کو دیکھے کوئی شام کے عالم میں جب اٹھ کے غبارِ راہگذر نظروں سے نہاں منزل کر دے گر ذوقِ طلب ہی دیکھنا ہے منظور تجھے دیوانے کا ہر نقش بنے زنجیرِ قدم اتنی تو کڑی منزل کر دے
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔ ہمیں کیا جبکہ رہنا ہی نہیں منظور گلشن میں
ہمیں کیا جبکہ رہنا ہی نہیں منظور گلشن میں گرے بجلی چمن پر آگ لگ جائے نشیمن میں جنوں میں بھی یہاں تک ہے کسی کا پاسِ رسوائی گریباں پھاڑتا ہوں اور رکھ لیتا ہوں دامن میںقمر قمر جن کو بڑے مجھ سے وفاداری کے دعوے تھے وہی احباب تنہا چھوڑ کر جاتے ہیں مدفن میں
Read Moreاستاد قمر جلالوی ۔۔۔۔ منزلیں غربت میں مجھ کو آفتِ جاں ہو گئیں
منزلیں غربت میں مجھ کو آفتِ جاں ہو گئیں وسعتیں ایک ایک ذرے کی بیاباں ہو گئیں چارہ گر کیونکر نکالے دل میں پنہاں ہو گئیں ٹوٹ کر نوکیں ترے تیروں کی ارماں ہو گئیں کیا کروں جو آہیں رسوائی کا ساماں ہو گئیں مشکلیں ایسی مجھے کیوں دیں جو آساں ہو گئیں آشیاں اپنا اٹھاتے ہیں سلام اے باغباں بجلیاں اب دشمنِ جانِ گلستاں ہو گئیں میری حسرت کی نظر سے رازِ الفت کھل گیا آرزوئیں اشک بن بن کر نمایاں ہو گئیں کیا نہیں معلوم کون آیا عیادت…
Read More