ہجومِ شہر پہ میں آشکار ہوتے ہوئے
اکیلا ہو گیا ہوں، بے شمار ہوتے ہوئے
ہوائے وحشتِ شب کھا رہی ہے میرا وجود
"میں خود کو دیکھ رہا ہوں غبار ہوتے ہوئے”
وہ مر گیا تو کھلا، مر گیا ہے فاقے سے
پڑوس میں کئی سرمایہ دار ہوتے ہوئے
خوشی سے ڈوب گیا میں ترے سمندر میں
کہ سطحِ آب پہ تنکے ہزار ہوتے ہوئے
یہ کس کا عکس مرے آئنے پہ ٹھہرا ہے
سمٹ گئی ہے نظر بے کنار ہوتے ہوئے
دئیے کے بدلے مَیں دل کو جلا کے بیٹھا تھا
ہوا کے خواب اُڑے تار تار ہوتے ہوئے
فقط خسارا ہی دیتا رہا منافع میں
یہ عشق اتنا بڑا کاروبار ہوتے ہوئے