انہی کو لوگ یہاں محترم سمجھتے ہیں
جو بولتے تو زیادہ ہیں، کم سمجھتے ہیں
ہماری بات کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ ہم
زمیں کو آنکھ، سمندر کو نم سمجھتے ہیں
ہمارے حال پہ ہے ان دنوں خدا کا کرم
اور آپ لوگ خدا کا کرم سمجھتے ہیں
گلے لگو تو خبر ہو تمہارے دل میں ہے کیا
کہ ہم اشارے نہیں بس ردھم سمجھتے ہیں
زمانہ اس لئے ہم کو مٹانا چاہتا ہے
کہ ہم حقیقت ِ دیر و حرم سمجھتے ہیں
ڈرے ہوئے ہیں کہ کوئی ہمیں نکال نہ دے
ہم اپنے گاؤں کو باغِ ارم سمجھتے ہیں
ہمیں خبر ہے رہِ زیست کی طوالت کی
مگر جو لوگ اسے دو قدم سمجھتے ہیں!
بہت شکریہ محترم نویید بھائی۔