خاکِ زمیں ہے دیکھ لو پہنا ہوا وجود
بوئے گُل و گلاب سے مہکا ہوا وجود
ہم اپنی خواہشات مجسّم نہ کر سکے
اب تک ہے جیسے چاک پہ رکھا ہوا وجود
کس کس سے روٹھی پیار محبت میں فصلِ گُل
کس کس کا چاہتوں میں ہے صحرا ہوا وجود
کس کس کے واسطے وہ علامت بقا کی ہے
ہنگامِ صبح و شام میں مٹتا ہوا وجود
زندہ ہے آدمی تو عجب ڈھنگ سے یہاں
بکھری ہوئی ہیں سوچیں تو سمٹا ہوا وجود
اب تو یہ خواہشات کی گٹھڑی اُٹھا کے پھینک
اب بوجھ اپنی ذات پہ اپنا ہوا وجود
ہر گام خار زار کچھ ایسے تھے ساتھ ساتھ
زخمی ہے روح بھی تو شکستہ ہوا وجود