او ستم گر! تو بڑا دشمنِ جاں ہے سب کا
کوئی بھی زخم سے چیخا تو زیاں ہے سب کا
ہے تو اک شخص کے ہونٹوں پہ ترا قصّۂ غم
شاملِ قصّہ مگر دودِ فُغاں ہے سب کا
آ بھی جاتے ہیں اِدھر بیتی رُتوں کے جھونکے
اب یہی خانۂ غم کنجِ اماں ہے سب کا
اک چمک سی نظر آ جائے، تڑپ اٹھتے ہیں
حسن کے باب میں ادراک جواں ہے سب کا
ایک اک شخص ہے ٹوٹا ہوا اندر سے یہاں
کیا چھپائے گا کوئی، حال عیاں ہے سب کا
کوئی سر پھوڑنا چاہے تو نہ اک سنگ ملے
اب تو اس شہر میں شیشے کا مکاں ہے سب کا
خیمۂ گرد جو راہوں میں تنا ہے بانی
اب یہی سب کا پتہ ہے، یہ نشاں ہے سب کا