جادو گری اس پر کسی صورت نہ چلے گی
اے عشق، تری سعیِ متانت نہ چلے گی
مجھ سا ترا دشمن بھی یہاں کون ہے، کچھ سوچ
دو روز بھی اپنی یہ عداوت نہ چلے گی
خوابیدہ سے لہجے میں سنا لے ابھی قصّے
وہ درد اٹھے گا کہ نزاکت نہ چلے گی
تو اپنے غمِ ذات کو کیسے ہی بیاں کر
اَوروں کی تراشیدہ عبارت نہ چلے گی
جھلسی ہوئی اک راہ پہ آنے کی ہے بس دیر
پھر ساتھ ترے گردِ مسافت نہ چلے گی
بستی ہے مری جاں یہ عجب بند گھروں کی
چل دے کہ یہاں رسمِ محبّت نہ چلے گی
میں ترکِ وفا کر لوں، مگر مجھ کو بتا دو
اس حادثے سے کوئی روایت نہ چلے گی
جو آئے ترے دھیان میں دل باختہ کہہ دے
بے ساختہ کہہ دے کہ حکایت نہ چلے گی
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا یہ درماں نہیں بانی!
شب بھر ترے پینے کی یہ عادت نہ چلے گی