جلیل عالی…. شکستگی سے سفر کے ہنر نکالتے ہیں

شکستگی سے سفر کے ہنر نکالتے ہیں
کہ خاکِ خواب سے خوابِ دگر نکالتے ہیں

ہمارے حوصلے دیکھو قدم قدم کیسے
تمہارے قامتِ قسوت سے سر نکالتے ہیں

گرا گرا کے وہ بارود ہار جائے گا
ہم اک نگاہ میں ملبے سے گھر نکالتے ہیں

کس اوجِ شوق سے زیرِ زمیں اترتے ہیں
اور اپنی خاک سے شمس و قمر نکالتے ہیں

متاعِ اہلِ وفا اک یہی سر و سودا
ہو جس طرح کی بھی دیوار ، در نکالتے ہیں

یہی قلم کی ہے رَو بجھ نہ پائے لفظ کی لَو
ورق ورق رہِ نَو بےخطر نکالتے ہیں

سخن کی شبنمی بوندوں سے سنگ سینوں میں
کٹھن ہے راہ نکلنا مگر نکالتے ہیں

گھلے فضا میں جو شیریں صدا پرندوں کی
شجر بھی شہد سے میٹھے ثمر نکالتے ہیں

وہ دل جو عشق بہاؤ بہیں وہی عالی
کسی وبال بھنورنے کا ڈر نکالتے ہیں

Related posts

Leave a Comment