حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔۔۔۔ دولتِ عشق کہاں میری کمائی ہوئی ہے

دولتِ عشق کہاں میری کمائی ہوئی ہے
یہ تو خود چل کے مرے ہاتھ میں آئی ہوئی ہے

اب ترا ہجر ، مرے زخم ہرے رہتے ہیں
میں نے کمرے میں تری یاد اگائی ہوئی ہے

یہ کہیں پاس بلانے کا اشارا تو نہیں
کس نے چوٹی پہ وہاں آگ جلائی ہوئی ہے

پھر بھی کیوں مجھ کو لگا رہتا ہے اک ڈر تجھ سے
صلح شرطوں پہ تری جب، مرے بھائی! ہوئی ہے

لامکانی کی یہ گٹھڑی بھی عجب گٹھڑی ہے
ہم نے اک عمر سے جو سر پہ اٹھائی ہوئی ہے

چونچ میں آب لیے غول پرندوں کے اڑے
کیا خبر کس نے کہاں آگ لگائی ہوئی ہے

مرتے مرتے میں بچا اپنے ہی ہاتھوں مشتاق
آج خود سے مری کچھ ایسی لڑائی ہوئی ہے

Related posts

Leave a Comment