خورشید ربانی ۔۔۔۔۔ خواب پھولوں کے دیکھتی دیوار

خواب پھولوں کے دیکھتی دیوار
اس کے گھر تک پہنچ گئی دیوار

کون آیا اجاڑ آنگن میں
جی اٹھی ہے گری پڑی دیوار

در بنایا گیا تھا اُس کے لیے
اور در کے لیے بنی دیوار

تُو نہیں ہے تو اب تری تصویر
دیکھتی ہے گھڑی گھڑی دیوار

پوچھتے ہو کہ ان کہی کیا ہے
تم نے دیکھی نہیں کوئی دیوار!

اپنی قسمت پہ ناز کرتی ہے
اس کی دیوار سے ملی دیوار

بات ایسی کوئی تو ہے اس میں
اس سے مل کے چمک اٹھی دیوار

کوئی تھامے کھڑا ہے مدت سے
خامشی سے بھری ہوئی دیوار

آنے والا ہے کیا کوئی مہماں
میں نے پوچھا تو ہنس پڑی دیوار

جانے کس کی ہے منتظر خورشید
یہ دریچوں سے جھانکتی دیوار

Related posts

Leave a Comment