سید ظہیر کاظمی ۔۔۔۔۔۔ وہ لمحہ بھی خود میں کتنا پیارا تھا

وہ لمحہ بھی خود میں کتنا پیارا تھا
کوزہ گر کے ہاتھ میں جس دم گاراتھا

ہم پردیسی، ہم کیا جانیں باغ کے دکھ

ہم نے اپنا جیون تھر میں ہارا تھا

اب کے ایسا پھول کھلا تھاصحرا میں

جس کے رخ سے روشن چاند ستارہ تھا

اُن آنکھوں کی وحشت کا کچھ مت پوچھو

جن ہاتھوں نے تنہا دشت سنوارا تھا

ہم نے اس کی خاطر گھر بھی چھوڑ دیا

جس نے ہم کو دشت میں لا کر مارا تھا

آئو، دیکھو پھول کھلے ہیں صحرا میں

یہ مت پوچھو کتنا خون ہمارا تھا

Related posts

Leave a Comment