شاہد ماکلی ۔۔۔ ہم پا بہ گِل نہیں تھے نباتات کی طرح

ہم پا بہ گِل نہیں تھے نباتات کی طرح
آزادہ رَو تھے خواب و خیالات کی طرح

خاک ایک دن میں خاک سے سونا نہیں ہوئی

سو مرحلوں سے گزری ہے کچ دھات کی طرح

ڈھل جاتے ہیں اُسی میں جو سانچہ میسر آئے

شاید ہمارے ذہن ہیں مائعات کی طرح

یہ آگ اپنی اَصل میں باطل نہ ہو کہیں

دل پر اثر ہے جس کا طلسمات کی طرح

لے لی نئے غموں نے پرانے غموں کی جا

جسموں میں بنتے ٹوٹتے خلیات کی طرح

تاروں کے ساتھ گنتا ہوں پاؤں کے آبلے

تجھ بن سفر بھی کٹتا نہیں رات کی طرح

Related posts

Leave a Comment