تھا کوئی خوف، لیکن واہموں جیسا
وہ حال اپنا برستے بادلوں جیسا
کوئی بھی اس مکاں میں اب نہیں رہتا
زمیں پر کیا ہوا ہے حادثوں جیسا
بکھرنے جو نہیں دیتا مجھے، ایسا
ہے کیا ماں کی دعا میں حوصلوں جیسا
وہی ہیں خون کے رشتے،وہی گھر ہے
مگر ہے درمیاں کچھ فاصلوں جیسا
کہانی میں سفر کی درج ہے ناصر
سڑک پر کچھ پڑا تھا آبلوں جیسا
Related posts
-
قمر جلالوی ۔۔۔ جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم
چھوٹ سکتے ہی نہیں طوفان کی مشکل سے ہم جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو
چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو جو بے اصول ہو، کب چاہئیں... -
غلام حسین ساجد ۔۔۔ جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے
غزل جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے کام لیتا ہوں وہاں نقدِ ثنا خوانی...