تھا کوئی خوف، لیکن واہموں جیسا
وہ حال اپنا برستے بادلوں جیسا
کوئی بھی اس مکاں میں اب نہیں رہتا
زمیں پر کیا ہوا ہے حادثوں جیسا
بکھرنے جو نہیں دیتا مجھے، ایسا
ہے کیا ماں کی دعا میں حوصلوں جیسا
وہی ہیں خون کے رشتے،وہی گھر ہے
مگر ہے درمیاں کچھ فاصلوں جیسا
کہانی میں سفر کی درج ہے ناصر
سڑک پر کچھ پڑا تھا آبلوں جیسا
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...