یُوں مِرے بُرجِ مُلاقات میں داخل ہو جاؤ
شعر بن کر مِرے وِجدان پہ نازل ہو جاؤ
بہتے پانی سے کوئی ربط تو رکھنا ہو گا!
گر سمندر نہیں ہو سکتے ہو، ساحل ہو جاؤ
اِک نئی زیست کا آغاز بھی ہو سکتا ہے
اتّفاقاً جو کبھی تُم مُجھے حاصل ہو جاؤ
فیصلہ کوئی مِرے بارے میں کرنا ہے تمہیں
’’تُم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ‘‘
ٹمٹماتے ہوئے تاروں کی طرح کیا جینا!
اُفقِ شب پہ مثالِ مہِ کامِل ہو جاؤ
لے کے آیا ہے عدُو پھر جو کوئی دامِ فریب
تم کہیں اُس کی دلیلوں سے نہ قائل ہو جاؤ !
سرحدِ جاں سے اُدھر کا سفر آساں تو نہیں
اپنے رستے میں تم ایسے تو نہ حائل ہو جاؤ
کبھی پسپائی کی نوبت ہی نہ آنے پائے
جنگ میں آپ ہی تُم اپنے مقابل ہو جاؤ
شہر سے ہو کے مخاطب کوئی کہتا ہے اُسے
کُوئے جاناں کی جگہ کوچۂ قاتل ہو جاؤ
فتح مندی میں تو اِک رنگِ ہزیمت آیا
جا کے ہارے ہوئے لشکر میں ہی شامل ہو جاؤ
ابدی نیند سے بہتر تو یہی ہے کہ نسیم
پھر سے اِس کارگہِ درد میں داخل ہو جاؤ