شبِ غم جو سورج اُگانے لگا ہے
وہ خوابوں سے مجھ کو جگانے لگا ہے
جو خود ایک دن کوڑیوں میں بِکا تھا
وہ اب میری قیمت لگانے لگا ہے
یہاں حال جس سے بھی پوچھا ہے مَیں نے
وہی اِک کہانی سنانے لگا ہے
وہ مہتاب جس کا ہے اُس کا رہے گا
تو اپنا دیا کیوں بجھانے لگا ہے
جو ناراض تھا آسمانوں سے آصف
وہ ٹھوکر سے مٹی اُڑانے لگا ہے
ڈاکٹر شفیق آصف ۔۔۔۔ شبِ غم جو سورج اُگانے لگا ہے
