شبِ غم جو سورج اُگانے لگا ہے
وہ خوابوں سے مجھ کو جگانے لگا ہے
جو خود ایک دن کوڑیوں میں بِکا تھا
وہ اب میری قیمت لگانے لگا ہے
یہاں حال جس سے بھی پوچھا ہے مَیں نے
وہی اِک کہانی سنانے لگا ہے
وہ مہتاب جس کا ہے اُس کا رہے گا
تو اپنا دیا کیوں بجھانے لگا ہے
جو ناراض تھا آسمانوں سے آصف
وہ ٹھوکر سے مٹی اُڑانے لگا ہے
Related posts
-
عنبرین خان ۔۔۔ میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی
میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی ان سے پڑھ لیتی ہوں سب شوق کی... -
احمد جلیل ۔۔۔ دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو
دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو مجھ کو لگتا ہے کہیں گھر کا... -
مسعود احمد ۔۔۔ ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں
ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں یہ کیسے دن ہمارے پھر رہے ہیں کسی سے...