کُھلا تھا اِک یہی رستہ تو اور کیا کرتا
نہ دیتا ساتھ ہَوا کا تو اور کیا کرتا
بہت دنوں سے پریشان تھا جدائی میں
جو اَب بھی تجھ سے نہ ملتا تو اور کیا کرتا
نہ کوئی دشتِ تسلی‘ نہ ہے سکون کا شہر
اُجالتا جو نہ صحرا تو اور کیا کرتا
بشر تو آنکھ سے اندھا تھا، کان سے بہرہ
تجھے صدا جو نہ دیتا تو اور کیا کرتا
مرے سفر میں مَحبت کا سائبان نہ تھا
بدن پہ دھوپ نہ مَلتا تو اور کیا کرتا
ترے حضور بھی جب اِذنِ مُدعا نہ ملا
متاعِ جاں نہ گنواتا تو اور کیا کرتا
حصارِ یاد کی زنجیر توڑ کر احمدؔ
کُھلی فَضا میں نہ آتا تو اور کیا کرتا
………………
مجموعہ کلام: میں اجنبی سہی
الاشراق پبلی کیشنز، لاہور
۲۰۰۷ء