خوابِ یوسف ! ۔۔۔ علی اصغر عباس

خوابِ یوسف !
۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے روشنی کی ضرورت سے باندھا گیا
اور آنکھوں میں
نور بھر کے دو نقطے
تارِ تجلی کی ضوباریوں سے یوں گانٹھے گئے
کہ وہ مہر و مہ کی رداے تحیر ّمیں لپٹے اجالےکی
کومل گرہ دار کرنوں سے تاروں کے ٹانکے لگیں
درخشانیوں نے
سمندر کی تہ میں گرے چاند سورج کی تاب و تواں کی خبر
پہاڑوں کی تابندہ برفوں کو دی
تو رخشاں ہوائوں کے جھکڑ چلے
آن کی آن میں
کوہِ گماں پہ ٹکی آنکھ میں خوابِ یوسف ہویدا ہوا
چاند، سورج، ستارے بھی
نور بھر کے دو نقطوں کے مابین سجدے میں تھے
تارِ تجلی کی ضوباریوں سے
مجھے روشنی کی ضرورت سے باندھا گیا
اور یعقوب کی چشمِ گریہ سے جھڑتی
بصارت کے اندوہ میں لا کے پھینکا گیا
جہاں بھائیوں کے تعصب کے آتش فشاں پھٹ رہے ہیں
مگر بھیڑیوں میں
کوئی خونِ یوسف کا بارِ ندامت بھی گردن پہ لینے کو تیارہوتا نہیں!

Related posts

Leave a Comment