علی اصغر عباس

لوگ پیڑوں کی طرح مجبور تھے، جھکتے گئے مَیں پرندہ تھا، ہَوا کا سامنا کرتا رہا

Read More

علی اصغر عباس

رات خالی پڑا رہا بستر جانے ٹوٹا تھا آسمان کہ دل

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ حصارِ مہر جو مسمار ہوتا جاتا ہے

حصارِ مہر جو مسمار ہوتا جاتا ہے دراز سایۂ دیوار ہوتا جاتا ہے یہ کس نے دُھوپ کنارے سے جھانک کر دیکھا افق بھی سرخیِ رخسار ہوتا جاتا ہے شکار گاہ میں ہانکا کرانے والا ہوں ہدف بھی میرا طلب گار ہوتا جاتا ہے شہابِ ثاقبِ دل ٹوٹ کر گرا جائے کمالِ دیدۂ مے خوار ہوتا جاتا ہے دیارِ ہجر میں پازیبِ غم چھنکتی سن شکیب درد کی جھنکار ہوتا جاتا ہے اشارہ پاتے ہی وہم و گماں، یقین ہوئے کشادہ جامۂ اسرار ہوتا جاتا ہے اے چوبِ خیمۂ جاں…

Read More

خوابِ یوسف ! ۔۔۔ علی اصغر عباس

خوابِ یوسف ! ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے روشنی کی ضرورت سے باندھا گیا اور آنکھوں میں نور بھر کے دو نقطے تارِ تجلی کی ضوباریوں سے یوں گانٹھے گئے کہ وہ مہر و مہ کی رداے تحیر ّمیں لپٹے اجالےکی کومل گرہ دار کرنوں سے تاروں کے ٹانکے لگیں درخشانیوں نے سمندر کی تہ میں گرے چاند سورج کی تاب و تواں کی خبر پہاڑوں کی تابندہ برفوں کو دی تو رخشاں ہوائوں کے جھکڑ چلے آن کی آن میں کوہِ گماں پہ ٹکی آنکھ میں خوابِ یوسف ہویدا ہوا چاند، سورج،…

Read More