برف گرتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برف گرتی رہی
اک تسلسل سے
سڑکوں پہ، شاخوں پہ، دیوار و در،
رہ گزاروں پہ گرتی رہی
برف گرتی رہی
شہر اور شہر کے لوگ سب برف کی قید میں
جیسے تنور ہو برف کا اور اُبلنے لگے
جیسے اک برف کا ریگ زارِ رواں ہو
سرِ آسماں پرفشاں
پچھلے دو دن سے مسدود کارِ جہاں
میرے بیڈ روم کی بند کھڑکی کو چھوتی ہوئی شاخ پر
روز ہی صبح جو چہچہاتی تھی چڑیا
نجانے کہاں کھو گئی!
کون سے کم پناہوں کی باہوں میں جا کر کہیں سو گئی،
بند کھڑکی کے دھندلے سے شیشوں کے
کونوں سے چمٹی ہوئی
آئنہ برف کی چند باریک سی پپڑیاں
میری تنہائی، میری غریب الدیاری کی اک داستاں
جسم اور روح کی سرزمیں پر تساہل کے پھیلے دھندلکے سلگنے لگے
چُپ سی، دیوار و در کی زبانوں سے چمٹی اداسی کی جونکیں
یہ برفیلی شامیں۔۔۔
سرِ فرش ایرانی قالین پر
گونگے بہرے سسکتے ہوئے فاصلوں کی یہ مکروہ لاشوں کے بکھرے ہوئے چیتھڑے
اور سرِ تاسۂ دل بھی بشکیک کی برف کے حزنیہ سرد نغمے!
یہ نانِ جویں کی تمنا میں
سستی مگر خود فروشی
تسلسل سے گرتی ہوئی برف کی قبر میں دفن ہوتے ہوئے حوصلے
کوئی آواز دے!
کوئی تو دور پردیس میں اپنا کہہ کر پکارے
کوئی جھیل میں ایک کنکر ہی مارے!
نہیں۔۔۔
کوئی بھی تو نہیں
ماسوا میرے کوئی نہیں
اک وہی۔۔۔ خامشی
جو ازل سے ابد تک ہے پھیلی ہوئی
یا کچن میں پڑی میز پر
گرم قہوے سے اٹھتی ہوئی بھاپ ہے
در کھلا۔۔۔
اور اچانک سرِ چشم اُکسانہ کی پھر وہی ایک مانوس خوشبو اُڑی
اور پھر۔۔۔
گھر کے کمروں میں، بستر پہ، قالین پر
دیر تک برف گرتی رہی ۔۔۔!