زاہدہ حنا
زاہدہ حنا ایک ممتاز صحافی، کالم نگار، فکشن اور ڈراما نگار ہیں۔ ۵؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کے روز سہسرام (بہار) میں پیدا ہوئیں۔والد کی ملازمت کی وجہ سے بچپن رام پور میں گزرا۔اُردو اور فارسی کا کلاسیکی ادب اپنے والد سے پڑھا۔اِن کی ادبی تربیت میں والد کا بہت حصہ رہا۔بہت عرصے سے ایک قومی اخبار میں ’’نرم گرم‘‘ کے نام سے کالم لکھ رہی ہیں۔وہ ریڈیو پاکستان، بی بی سی اور وائس آف امریکا سے بھی منسلک رہیں۔ اِن دنوں ادارہ انجمن ترقیٔ اُردو، کراچی کی سربراہ ہیں۔اُن کی پہلی تخلیق ۱۹۶۲ء میں ماہنامہ انشا میں میں شائع ہوئی۔جس کو اُس زمانے میں جون ایلیا بہ طور مدیر شائع کرتے تھے۔ جون ایلیا سے اُن کی شادی بھی ہوئی جو بعد ازاں علاحدگی پر منتج ہوئی۔اُن کے افسانے انگریزی کے علاوہ، ہندی، بنگالی، سندھی اور مراٹھی میں ترجمہ کیے جا چکے ہیں۔ انگریزی میں اُن کی کتب کا ترجمہ محمد عمر میمن اور ثمینہ رحمن نے کیے۔ٖفیض احمد فیض نے بھی اُن کے ایک افسانے کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔زاہدہ کے افسانوی مجموعوں میں قیدی سانس لیتا ہے، تتلیاں ڈھونڈنے والی،رقصِ بسمل ہے، راہ میں اجل ہے شامل ہیں۔علاوہ ازیں نہ جنوں رہا نہ پری رہی (ناولٹ)،دو ناول درد کا شجر اور دردِ آشوب اورٹی وی ڈراما زرد پتوں کا بن شامل ہیں۔
خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک اور ظلم و جبر کا ادراک رکھنے کے باوجود وہ حقوقِ انسانی کی علم بردار ہیں۔جاپان میں آئندہ نسلوں تک منتقل ہوتے ہوئے ایٹمی تابکاری کے اثرات ہوں یا روس میں بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے انسانی مسائل، دکھ اور پریشانیاں، زاہدہ حنا کے افسانوں کا موضوع انسان ہے صرف عورت نہیں۔ وہ کئی حوالوں سے مرد کو بھی فرسودہ نظام کے استحصال کا شکار خیال کرتی ہیں۔وہ سمجھتی ہیں کہ حقوقِ نسواں در حقیقت حقوقِ انسانی ہیں اگر وہ انسانوں کو حاصل ہو جاتے ہیں تو عورت بھی محروم نہیں رہے گی۔ ’’قیدی سانس لیتا ہے‘‘ کے حرفِ آغاز میں خود لکھتی ہیں:’’بچپن میں بھوتوں، پریتوں، چڑیلوں اور پچھل پائیوں سے ڈرتی تھی۔بڑی ہوئی تو بے خوفی اِس حد کو پہنچی کہ خدا وندوں کا خوف بھی دل سے جاتا رہا۔ اب صرف وقت سے خوف آتا ہے جو ترازو لیے بیٹھا ہے اور کسی کے ساتھ بھی رو رعایت نہیں کرتا۔ وہ کسی کا دوست یا دشمن نہیں۔ وہ کھوٹے کو کھرا اور چاندی کو سوناقرار نہیں دیتا۔میں اُس سے پناہ چاہتی ہوں اور اُس کی امان میں آتی ہوں۔‘‘ اُنہوں نے پہلی کہانی 9 برس کی عمر میں لکھی۔ اُن کی شخصیت کی کئی جہات ہیں مگر انہیں شہرت بہ طور فکشن نگار حاصل ہوئی۔صحافتی کیرئیرکا آغاز ہفت روزہ اخبار خواتین سے کیا۔ عالمی ڈائجسٹ سے ماہنامہ روشن خیال کی ادارت اور پھر مختلف روزناموں میں اظہاریہ نویسی تک انہوں نے طویل مگر کٹھن سفر طے کیا ہے۔اوائل عمری ہی سے خاندان کی ذمے داریاں عملی زندگی کی جدو جہد میں لے آئیں۔تخلیقی صلا حیتیں اخبارات و رسائل تک لے گئیں۔اُن کی تخلیقات میں جرأتِ اظہار نمایاں ہے۔ وہ سچائی اور حقیقت پسندی کے ساتھ سماجی برائیوں پر نشتر زنی کرتی ہیں۔اُن کی افسانہ نگار کو بہت حد تک کالم نگاری نے متاثرکیا ہے ورنہ وہ خالص ادب میں مزید اضافے کر سکتی تھیں۔
زاہدہ حنا کے ہاں خالدہ حسین کی تخلیقات کی طرح علامتی اور تجریدی فضا بھی بہ کثرت ملتی ہے۔ کئی افسانے تمثیلی اور اساطیری رنگ میں بھی ملتے ہیں۔اُن کے ہاں تاریخ، اساطیر، گہرا مطالعہ اور تہذیبی شعور نمایاں ہی نہیں بل کہ افسانہ اِن عوامل کے زیرِ اثر آگے بڑھتا ہے۔ماضی کے خوب صوت نقوش اور حال کا تصنع کئی افسانو ں کا مرکزی خیال ہے جیسے’’قیدی سانس لیتا ہے‘‘ کا پہلا افسانہ ’’نا کجا آباد۔‘‘
افسانہ ’’زیتون کی شاخ‘‘ میں انہوں نے جزئیات اور فکر و فلسفہ ہی بیان نہیں کیا۔ اپنا سارا علم اور مطالعہ نچوڑ دیا ہے۔ وہ تاج محل اور غالب،فلسطین اور بنی اسرائیل، کوریاکی جنگ اور ویت نام کی جنگ، برٹرینڈ رسل کی کتاب ’’جنگِ ویت نام میں جنگی جرائم‘‘ کے حوالے سے بہت کچھ کہہ گئی ہیں۔اپنی پسندیدہ فلم ’’اے فئیر ویل ٹو آرمز‘‘ سے لے کر ’’سدھارت‘‘ تک قاری پر اپنے مطالعے کا رعب طاری کر دیتی ہیں۔اِس افسانے کی کہانی یہ ہے کہ افسانہ نگار خاتون کی ایک امریکی نوجوان ایڈگر سے ملاقات ہوتی ہے جو نا چاہتے ہوئے بھی جنگ کے لیے ویت نام جا رہا ہے۔ امریکا میں اُس کی بیوہ ماں اُس کی راہ دیکھ رہی ہے۔ آخر وہ نوجوان وہاں زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔
افسانہ ’’صر صر بے اماں کے ساتھ‘‘ میں بھی وہ دیبل اور کپل وستو، موہنجو دڑو، لبنان، یونیسکو،بانیان کا آتش کدہ نو بہار اور بہت سے دیگر تاریخی حوالے ساتھ لے کر چلتی ہیں۔وہ فکشن کی زبان میں بات کرنا جانتی ہیں مگر اُن کے ہاں چوں کہ پلاٹ اور کہانی پن کی اہمیت کم ہے، اِس لیے قاری اُن کی علمیت سے تو متاثرہوتا ہے مگر مصنفہ کی نگارشات سے بے تکلف نہیں ہو پاتا۔قاری اور تخلیق کے درمیان کچھ فاصلہ اور اجنبیت رہ جاتی ہے جو تفہیم میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔زاہدہ حنا کے اسلوب اور فکریات پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کئی تہذیبوں اور ثقافتوں کا مشاہدے کرنے کا موقع ملا ہے۔ اُن کے اکثر کردار لبنانی، ایرانی، افریقی امریکی یعنی غیر ملکی ہیں۔۱۹۹۳ء ’میں اُن کا افسانوی مجموعہ ’’راہ میں اجل ہے‘‘ شائع ہوا جس کے ایک افسانے ’’تنہائی کے مکان میں‘‘ کے اندرماسومی کے حوالے سے جاپان پر امریکا کے ایٹمی حملے کے پس منظر میں جنم لینے والے انسانی المیوں کا ذکر کہ اُس حملے کے متاثرین کو جاپان میں ’’ہیبا کوشا‘‘ کہتے ہیں۔
افسانہ ’’تتلیاں ڈھونڈنے والی‘‘ میں پھانسی کی سزا پانے والی ایک عورت نرجس کے جیل میں شب و روز بیان کیے گئے ہیں، مگر کچھ باتیں قاری پر چھوڑ دیتی ہیں مثلاً اُن وجوہات کا بیان تشنہ رہنے دیا ہے کہ جو اُسے پھانسی گھات تک لے جانے کا سبب بنے۔کتاب’’تتلیاں ڈھونڈنے والی‘‘ میں ’افسانہ ’’ساتویں رات‘‘ یک کرداری مکالمہ ہے۔ علامت و تجرید ہے۔افسانہ ’’رنگ تمام خوں شدہ‘‘ میں بھی پلاٹ یا کہانی پن کی اہمیت نہیں۔ تجسس بھی گرفت میں نہیں لیتا۔ البتہ مصنفہ کا سیاسی اور تاریخی شعور نمایاں ہے۔طبقاتی نا ہمواری کا بیان بھی اُن کے حساس اور ذمے دار ذہن کا عکاس ہے۔’’رقصِ بسمل ہے‘‘ طبع شدہ۲۰۱۱ ء میں شامل افسانہ’’آنکھوں کو رکھ کے طاق پہ دیکھا کرے کوئی۔‘‘ روس کی معاشی بد حالی کے پس منظر میں جنم لینے والی غربت اورمسائل کی عکاسی عمدگی سے کی گئی ہے۔مختصر یہ کہ اُن کے افسانے ایک صاحبِ علم قلم کار سے ملاتے ہیں۔