"دست برگ” اور ”رن آن لائنز” کا چلن ۔۔۔ ڈاکٹر کالی داس گپتا رضا

مکتوب بنام ستیہ پال آنند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"دست برگ” اور ”رن آن لائنز” کا چلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممبئی
۲۲ ِاپریل ۱۹۹۱ء

محبی آنند صاحب! تسلیمات

آپ نے مجھ ناچیز کو یاد فرمایا۔ بے حد ممنون ہوں۔
میں ماہرِ عروض نہیں ہوں۔ جو کچھ بھی استادِ محترم ابوالفصاحت پنڈت لبھورام جوش ملسیانی کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھا، اسی سے مشقِ سخن ہوئی۔ کمال کرتارپوری بھی میرے بزرگوں میں سے تھے۔ آپ نے ان کا ذکرِ خیر کیا، گویا مجھے میری پرانی زندگی کی یاد دلا دی۔ مجھےتین چار بار آپ سے شرفِ ملاقات کا ہونا بھی یاد ہے۔ آپ اور پریم دار برٹنی مرحوم اکٹھے تشریف لایا کرتے تھے اور نکودر میں جب استادِ محترم کے دولت کدے تک پہنچتے تو وہ اندر آواز دیتے۔ ”ارے بھئی، کوئی تھنڈا شربت لائو، دیکھو لدھیانہ سے دو نوجوان شاعر آئے ہیں۔” شفقت کی مورتی تھے ہمارے استادِ محترم۔
"دست برگ” کی ایک جلد آپ نے مرحمت فرمائی، ممنون ہوں۔ آپ کا یہ اقدام کہ ان بحور کو بھی نظم کی صنف کے لیے بروئے کار لایا جائے، جو غزل کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی ہیں، بروقت ہے۔ بحرِ خفیف، اسم بامسمٰی، خفیف ہے اور چونکہ سبھی مصارع ”فعلن” پر ختم ہو جاتے ہیں اس لیے ان کے بعد جب تک نیا مصرع ‘فاعلاتن’ سے شروع نہ ہو، بحر کو کیسے قائم رکھا جائے گا؟ ” رن آن لائنز” (میں نے کچھ انگریزی سے نابلد لوگوں کو "Running Lines” بھی لکھتے ہوئے دیکھا ہے، اور کہتے ہوئے سنا ہے) کا التزام انگریزی کی ڈرامائی شاعری سے شروع ہوا اور بیسویں صدی کے اوائل میں بلینک ورس تک آتے آتے ایک راسخ اسلوبیاتی روایت کی شکل اختیار کر گیا۔ صنفِ نظم میں وسعت ہے، پھیلائو ہےاور اگر خیال کی رو کو زبان کی رو سے مل کر چلنا ہے، تو ” رَن آن لائنز” کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ورنہ نظم ریزہ ریزہ ہو کر الگ الگ ٹکڑوں کا ڈھیلا ڈھالا مجموعہ نظر آئے گی۔ اس حد تک تو مجھے آپ سے اتفاق ہے۔
گوپی چند نارنگ اپنے "اختتامیہ” میں اس بحث سے کنی کترا گئے کہ آپ کا یہ اقدام کس حد تک مستحسن ہے کہ ایک مصرعے (آپ اس کو سطر کہتے ہیں) میں شروع کیا گیا خیال اپنی تکمیل کے لیے مصرع کے آخر میں نہ ٹوٹے اور دوسرے مصرعے تک یا تیسرے مصرعے تک آگے بڑھتا چلا جائے۔ جب عروض کی بات آتی ہے تو اکثر لوگ کہتے ہیں، یہ میرا میدانِ اختصاص نہیں ہے۔ بہرحال یہ بحث ضروری ہے اور میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے خود اپنے خیالات کو دوبارہ پرکھنے کا موقع فراہم کیا۔
"دست برگ” کی وہ نظمیں جن میں نفسِ مضمون کو پہلی سطر سے تجاوز کر کے آگے بڑھاتے ہوئے آپ دوسری سطر کے وسط تک یا آخر تک، یا وہاں سے بھی آگے تیسری سطر کے وسط تک یا آخر تک لے گئے ہیں۔ وہی "رن آن لائنز” کے التزام کے تحت آتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ مصرعے کو آخر میں حرفِ صحیح Consonant پر ختم کر کے آگے بڑھاتے ہیں یا Vowels پر ختم کر دیتے ہیں۔
دونوں حالتوں میں فرق ہے، ایک مثال ملاحظہ کریں۔ آپ کی نظم کا عنوان ہے "بن باس”۔ صرف آٹھ سطروں کی نظم ہے، اس لیے میں پوری نظم ہی لکھ رہا ہوں:

۱۔ جانے والے نے عید کا دن ہی
۲۔ کیوں چنا، اس سے کوئی کیا پوچھے
۳۔ چاند کی پہلی رات تھی، اور آج
۴۔ چاند کی چودھویں ہے، چودہ دن
۵۔ دن نہیں ہیں، طویل تر عرصہ
۶۔ چودہ برسوں کا ہے، جسے میں نے
۷۔ ذہن کے جنگلوں میں پھرتے ہوئے
۸۔ گھر کی دہلیز پر گزارا ہے!! 

سطر ۱ اور ۲ ”رن آن لائنز” کے التزام سے منسلک ہو کر ایک مکمل جملہ بن جاتی ہیں لیکن اس کے بعد کی چھ کی چھ سطریں آپس میں منسلک ہوتی چلی جاتی ہیں اور تب جا کر تین جملوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ نثر میں اسے اس طرح لکھا جائے گا۔
(۱) چاند کی پہلی رات تھی اور آج چاند کی چودھویں ہے۔ (۲) چودہ دن، دن نہیں ہیں۔ (۳) طویل تر عرصہ چودہ برسوں کا ہے، جسے میں نے، ذہن کے جنگلوں میں پھرتے ہوئے، گھر کی دہلیز پر گزارا ہے۔
لیکن جملہ نمبر ۱ چوتھی سطر کے وسط میں مکمل ہو جاتا ہے اور وہیں سے جملہ نمبر ۲ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جملہ نمبر ۳ پانچویں سطر کے وسط میں پورا ہو جاتا ہے اور پھر وہیں سے جملہ نمبر ۴ شروع ہو جاتا ہے۔
مندرجہ بالا مثال ”رن آن لائنز” کی بہترین مثال ہے۔ اور اس میں کوئی قباحت نہیں کہ جملوں کو سطر (مصرع) کے وسط میں مکمل کرنے کے بعد آگے کا سفر طے کیا جائے، لیکن اس میں مشکل یہ ہے کہ غزل کے اثرات نے قارئین کے ذہنوں میں ایک عادتِ ثانیہ کی قسم کا Conditional Reflex قائم کر دیا ہے وہ ” فاعلاتن مفاعلن فعلن” کے بعد یا تو جملے کو وہیں مکمل ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، یا صرف پہلے مصرعے کو دوسرے تک تجاوز کرنے کی آزادی دے سکتے ہیں۔ دو مثالیں میری بات کو واضح کریں گی:

صد حیف! وہ ناکام کہ اک عمر سے غالب
حسرت میں  رہے ایک بتِ عربدہ جُو کی

غالب ہی وہ ”ناکام” ہے جو حسرت میں رہا ہے۔ یا "وہ” صیغہء غائب ہے، اور غالب بطور شاعر صرف ذاکر ہے، ان ناکام عاشقوں کا، جو ایک بتِ عربدہ جو کی حسرت میں عمر بھر رہے ہیں، تشریح طلب ہے، لیکن یہاں ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ فاعل غالب ہو یا "ہوں”، جب تک دوسرا مصرع وارد نہ ہو، جملہ مکمل نہیں ہو پاتا۔
بحرِ خفیف میں یہ شعر دیکھیے:

سبزہ و گل کو دیکھنے کے بعد
چشمِ نرگس کو دی ہے بینائی

ایسے ہزاروں اشعار ہیں، جن میں پہلا مصرع "رن آن” ہو کر دوسرے مصرعے میں پیوست ہو جاتا ہے اور اس طرح ایک مکمل "جملہ” وارد ہوتا ہے۔
آپ کا یہ اصرار کہ غزل میں پہلے ”رن آن لائنز” کا چلن نہاں تھا، صداقت پر مبنی نہیں ہے، ہاں چونکہ غزل میں ” شعر” دو مصارع سے مل کر بنتا ہے، اس لیے دوسرے مصرعے سے آگے بڑھنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے، چہ آنکہ آپ چار مصارع میں غزل کے اندر رہ کر ہی قطعہ کہنے کا التزام کریں۔
آپ نے جو تجربات کیے ہیں، وہ بادی النظر میں قارئین کو یقیناً اجنبی اور غیر مانوس لگیں گے، لیکن اگر غزل کی تنگ دامانی کو پاٹنے کے لیے رفوگری کے طور پر” آزاد غزل” جیسے بھونڈے تجربے کیے جا رہے ہیں ، تو بلینک ورس نظم میں ”رن آن لائنز” کے چلن پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ مثلاً آپ کی نظم "ہمزاد” اس طرح ہے:

۱۔ جب کسی روز میں نہیں ہوتا
۲۔ میرے کپڑوں میں کوئی دیگر شخص
۳۔ چھپ کے رہتا ہے، ایسے دن اکثر
۴۔ آتے رہتے ہیں، اور مرا ہم زاد
۵۔ بے دھڑک میرا جسم پہنے ہوئے
۶۔ گھومتا ہے، نہ جانے کن لوگوں
۷۔ بدمعاشوں کی صحبتِ بد میں
۸۔ سارا دن کاٹتا ہے، اور دیگر
۹۔ اپنے جیسے ہزار لوگوں کو
۱۰۔ جو کسی اور کا بدن پہنے
۱۱۔ گھومتے ہیں (جو خود نہیں ہوتے)
۱۲۔ ڈھونڈتا ہے، کہ ان کو قتل کرے!

میں نہ یہ نظم اس لیے منتخب کی ہے کہ اس میں ”رن آن لائنز” کی خوبیاں (اور خامیاں) دونوں بدرجہء اتم موجود ہیں۔ پہلی سطر خود میں ایک مکمل مصرع ہے اور جملہ بھی۔ سطر ۲ کا نثری جملہ سطر ۳ کے وسط میں پہنچ کر رک جاتا ہے اور پھر وہیں سے نیا جملہ شروع ہوتا ہے۔ اب ” رن آن لائنز” کا بہائو اس قدر تیز ہے کہ سطر ۳ کے وسط سے لے کر سطر ۸ تک بہتا چلا جاتا ہے۔ یہاں "اور” سے نئے جملے میں پیوندکاری کرتے ہوئے، یہی جملہ آخری سطر یعنی ۱۲ تک پہنچ کر ہی دم لیتا ہے۔
موضوع اور متن کی مناسبت سے اسلوب کو دیکھیں تو ان میں مطابقت ہے۔ یعنی شاعر کا ہم زاد چلتا پھرتا، گھومتا، دوڑتا ہوا اک ہیولٰی ہے اور یہ ضروری ہے کہ متن کا بہائو اور اسلوب کا بہائو تاثراتی سطح پر ایک دوسرے کو تقویت پہنچائیں، لیکن اسے خوبی کہیں، یا نہ کہیں کہ یہ طویل جملہ اٹھائیس (۲۸) الفاظ پر مشتمل ہے اور شاید یہ نازک اور خفیف سی بحر اس طوالت کا بوجھ برداشت نہ کر پائے۔
میں نے آپ کی نظموں کو بہت پسند کیا، موضوعات بالکل نئے ہیں، آپ میری طرح پنجابی نژاد ہیں، اس لیے ”پنجابیت” کی بو باس بھی ہے۔ آپ نے حتی الوسع غیر ضروری اضافتوں اور ترکیبوں سے پرہیز کیا ہے۔ مجھے کچھ نظمیں اتنی پسند آئیں کہ متعدد دوستوں کو پڑھ کر سنائیں۔ کچھ افسوس بھی ہوا کہ ایک پراجیکٹ کے تحت لکھی ہوئی یہ نظمیں آپ نے کتاب میں شامل کرنے سے پہلے رسائل اور جرائد کو اشاعت کے لیے کیوں نہیں دیں۔
فیض احمد فیض سے اپنی آخری ملاقات کا جو حوالہ آپ نے اپنی نظم "ایک نادار ملک کا شاعر” میں دیا ہے، چونکا دینے والا ہے۔ کیا واقعی اپنے آخری دنوں میں یہ جانباز شاعر اتنا ٹوٹ چکا تھا؟ دل نہیں مانتا، لیکن آپ کے علاوہ کچھ دیگر ذرائع سے بھی جو اطلاعات ملی ہیں وہ آپ کی "رپورٹ” کو صحیح ثابت کرتی ہیں۔

خاکسار

کالیداس گپتا رضا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ:

دست برگ: ستیہ پال آنند کی یک صد نظموں کا مجموعہ ۱۹۸۹ء جس کی سبھی نظمیں "رن آن لائنز” کے التزام سے بحرِ خفیف میں تقطیع کی جا سکتی ہیں۔

…………………………………

ستیہ پال آنند کی نظم نگاری
مرتب: ڈاکٹر اے عبداللہ
۲۰۰۸ء

 

Related posts

Leave a Comment