جب طوفاں کے بیچ کنارہ ہو سکتا تھا ۔۔۔ منیر سیفی

جب طوفاں کے بیچ کنارہ ہو سکتا تھا
دریا کے باہر بھی دھارا ہو سکتا تھا

اِک دیوار گرانے، اِک پردہ اُٹھنے سے
اندر باہر ایک نظارہ ہو سکتا تھا

تاریکی کی قسمت بدلی جا سکتی تھی
ہر بستی میں ایک ستارہ ہو سکتا تھا

قریہ قریہ خاک اُڑائی جا سکتی تھی
میری آنکھوں کا بٹوارا ہو سکتا تھا

جاں دے کر سستے میں جان بچا لائے ہو
ورنہ عشق میں اور خسارا ہو سکتا تھا

کب تک رستہ خوشبوئوں کا روکے رہتے
کب تک اپنا جسم گوارا ہو سکتا تھا

اوّل اوّل آگ بجھائی جا سکتی تھی
اوّل اوّل درد کا چارہ ہو سکتا تھا

جانے سے پہلے اِتنا تو سوچا ہوتا
درد مِرے دل میں دوبارہ ہو سکتا تھا

تنکے نے بھی آس لگائی ہو گی مجھ پر
جب تنکے کا مجھے سہارا ہو سکتا تھا

کیا ہونا تھا ڈوبنے والے کی آنکھوں میں
ایک گھروندا، ایک کنارہ ہو سکتا تھا

سیفی! بے شک عیب نمایاں کر دیتیں وہ
روشنیوں کے بیچ گزارا ہو سکتا تھا

مجموعہ کلام: الست
کاغذی پیرہن، لاہور
اکتوبر ۲۰۰۴ء

Related posts

Leave a Comment