اکرم کُنجاہی  … شہر آشوب

شہر آشوب
……….

طہارت دل کے کعبوں کی
مٹی جاتی ہے یارب
کوئی دل تو مقدس ہو
کہ جس میں انسانوں کی الفت
شمع کی صورت فروزاں ہو
مگر ستم ہے کہ جتنے دل ہیں
وہ دل سیاہ ہیں
دماغ سارے کدورتوں کی
اماجگاہ ہیں
دکھی دلوں کی جو بے بسی کو
نویدِ فتح مبین سمجھیں
چبھن ہے کانٹوں سی
بانجھ سوچوں کی کھیتیوں میں
کون فردِ عمل کو دیکھے
کہ جاہلوں کی زباں
سچائی کا ہے صحیفہ
حسن و خوبی معیار کیسا
چھپا دئیے ہیں اندھیرے پردوں میں
کور چشمی نے ننھے مُنے چمکتے جگنو
ہے پت جھڑی بھی
گلاب رت ہی کا ایک پہلو
مگر یہاں تو
بہار موسم کے ہر ثمر کو
نظر خزاؤں کی کھا گئی ہے
سبھی محبت کے گھونسلوں پر
ستم شعاروں نے
کھینچ رکھی ہیں کیوں کمانیں؟
زر پرستوں نے
تیرے انساں کی عظمتوں کو
دھکیل رکھا ہے بے نصیبی کی گھاٹیوں میں
بے حسی کے تمام تودے
بدن دریدوں پہ گر پڑے ہیں!
مگر تعجب ہے
اپنے زخموں کے سب مسیحا
اندھیر نگری میں
کیوں صلیبوں پہ چڑھ گئے ہیں؟
سنو سنو! زمیں کے باسی پکارتے ہیں
وہ منتظر ہیں
کہ ظالموں کی سزائیں باقی
کیا اگیں گی کچھ اپنی دھرتی پہ بھی صلیبیں
کون بوئے گا بیج ایسے؟
کسے پکاریں گے تیرے بندے؟
تیرے انساں ہی تیرے انساں پہ حکمراں ہیں
تیرے بندے حقیر بستی کی ہیں رعایا
میں آنکھ پتلی پہ گھاؤ لے کر
یہ سب تماشے جو کر رہا ہوں
روز جیتا ہوں
مر رہا ہوں
تیری دنیا میں جی نہیں لگتا

Related posts

Leave a Comment